اسلام آباد (فرحان علی/ خصوصی نامہ نگار/ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی ) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیرمعمولی اجلاس میں اسلامی ملکوں سمیت تمام ممالک کے مندوبین نے افغانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور افغانستان میں ممکنہ انسانی بحران اور معاشی تباہی کے نتائج ہولناک ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری پر افغانستان کو انسانی بنیادوں پر فوری اور بھرپور امداد فراہم کرنے کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس کے اعلامیہ میںاو آئی سی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کی تعیناتی،امداد کے لئے اسلامک ٹرسٹ فنڈ کے قیام اور فوڈ سکیورٹی پروگرام پر اتفاق کیا گیا۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کے 17 ویں غیر معمولی اجلاس میں وزرائے خارجہ، نائب وزرائے خارجہ سمیت 70 وفود نے شرکت کی۔ سعودی عرب نے غربت اور بھوک سے نبرد آزما افغانستان کیلئے ایک ارب ریال مختص کئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو چاہیے کہ 4 کروڑ افغان عوام اور طالبان حکومت کو علیحدہ علیحدہ دیکھے۔ امریکہ 20 سال تک طالبان کے ساتھ جنگ میں رہا لیکن یہ افغان عوام کا سوال ہے۔ جبکہ طالبان کو عالمی برادری سے کیے گئے وعدے بشمول جامع حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں پا کستان کی دعوت پر20ممالک کے وزرائے خارجہ،10نائب وزرائے خارجہ، یورپی یونین ممالک سمیت 70 سے زائد عالمی تنظیموں کے وفود نے شرکت کی۔ وزرائے خارجہ کانفرنس کی صدارت وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی جبکہ وزیر اعظم عمران خان، سیکرٹری جنرل اسلامی تعاون تنظیم حسین ابراہیم طحہ اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبد اللہ نے افتتاحی سیشن میں شرکت کی۔ اجلاس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ابتدائی کلمات سے شروع ہوا۔ وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان نے سب سے زیادہ کاوشیں کی ہیں۔ دنیا کو تمام چیزوں سے بالاتر ہو کرافغان معاملے پر آگے بڑھنا ہوگا، پاکستان افغانستان کیلئے جو ہو سکتا ہے وہ کر رہا ہے۔ غیرمعمولی اجلاس کیلئے او آئی سی کا پاکستان پر اعتماد خوش آئند ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ 1980 کے بعد او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں پھر ہو رہا ہے۔ افغانستان کی نصف آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے جبکہ انہیں ادویات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ افغانستان کے معاشی حالات عالمی برادری کی توجہ کے طالب ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ افغانستان میں تعلیم، صحت اور تکنیکی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کا گروپ بناکر افغانستان کو جائز بینکنگ سہولیات تک رسائی میں مدد دینی ہو گی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے کہا کہ پاکستان نے کم ترین وقت میں اجلاس کو ممکن بنایا ہے۔ افغانستان میں کشیدہ صورتحال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور برادر اسلامی ملک کے معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان عوام ہماری مدد کے منتظر ہیں اور افغانستان میں مالی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ برادر اسلامی ملک کی اس مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے افغانستان کیلئے ایک ارب ریال مختص کئے ہیں۔ دنیا کو عالمی امن کیلئے افغانستان میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیکرٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طہ نے کہا میری قیادت میں اسلامی تعاون تنظیم کا جنرل سیکرٹریٹ گزشتہ کئی سالوں اور مہینوں سے افغانستان میں جاری سنگین انسانی صورتحال پر انتہائی تشویش کے ساتھ گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا میں اس موقع پر اسلامی سربراہی اجلاس کے سربراہ کی حیثیت سے سعودی عرب کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے افغانستان کی انسانی حقوق کی صورتحال پر وزرائے خارجہ کی کونسل کا غیر معمولی اجلاس بلانے کا اہم اقدام اٹھایا ہے ۔ اس کے علاوہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے کانفرنس کی فراخدلی سے میزبانی قبول کرنے پر انہیں سراہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کا اہم رکن ہونے کے ناطے افغانستان کو تنظیم کے رکن ممالک کی طرف سے مکمل حمایت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس وقت افغان عوام کی صحت، خوراک کے تحفظ اور صفائی جیسے شعبوں وسیع پیمانے پر امداد پہنچانے کی فوری ضرورت ہے، میں اسلامی ترقیاتی بینک اور اسلامی یکجہتی فنڈکے ذریعے او آئی سی کے تمام رکن ممالک پر زور دیتا ہوں کہ وہ افغانستان کیلئے امدادی منصوبے کو منظم اور ان پر فوری عملدرآمد کیلئے ضروری وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فعال کردار ادا کریں۔ میں قوی امید کرتا ہوں کہ او آئی سی کے رکن ممالک، اقوام متحدہ اور علاقائی شراکت داروں کے علاوہ متعلقہ فریقین افغانستان میں تباہ کن انسانی حقوق کی صورتحال کا پائیدار حل نکالنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی افغانستان کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی اور اس وقت بھی ملک کا 75 فیصد بجٹ کا انحصار غیرملکی امداد پر رہا ہے۔ جبکہ افغانستان 4 دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے۔ افغانستان کی مدد کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم مہاجرین کے ایک اور سیلاب سے نبرد آزما ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال انتہائی سنگین، بینکنگ سسٹم جمود کا شکار ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے عوام بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ہر فورم پر کشمیر اور فلسطین کیلئے آواز اٹھانا ہو گی۔ دنیا نے اقدامات نہ کیے تو افغانستان میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے امر یکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو چاہیے کہ 4 کروڑ افغان عوام اور طالبان حکومت کو علیحدہ علیحدہ دیکھے۔ امریکا 20 سال تک طالبان کے ساتھ جنگ میں رہا لیکن یہ افغان عوام کا سوال ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو عالمی برادری سے کیے گئے وعدے بشمول جامع حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر افغانستان میں افراتفری ہوگی تو مہاجرین میں اضافہ ہوگا۔ دیگر ممالک کو بھی ان کا سامنا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے جن میں سے 2 لاکھ افراد اپنے ویزے ختم ہوجانے کے باوجود واپس نہیں گئے ہیں۔ اسلامو فوبیا کے خاتمے کے لیے او آئی سی کردار ادا کرے۔ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا لیکن بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں بہت پروپیگنڈا کیا گیا۔ نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کی لہر میں شدت آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی اور اسلام کو جوڑا گیا اور ریڈیکل اسلام کی ٹرم بنائی گئی۔ ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش او لو نے کانفرنس کے انعقاد پر پاکستان اور سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ افغانستان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں طالبان کے ساتھ بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بعدازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم وزراء خارجہ کے اجلاس میں مندوبین نے شرکت کی۔ اجلاس میں افغانستان کیلئے ٹرسٹ فنڈ کیلئے اتفاق کیا گیا۔ فوڈ سکیورٹی پروگرام برائے افغانستان پر اتفاق کیا گیا ہے۔ او آئی سی کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کی تعیناتی پر اتفاق کیا گیا۔ او آئی سی اور یو این مل کر افغانستان میں کام کریں گے۔ شاہ محمود نے کہا کہ یہ ایک ابتدا ہے، فالواپ اجلاسوں کی ضرورت ہوگی۔ عالمی برادری نے افغانستان کیلئے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔ کئی ممالک مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ براہ راست مدد نہیں کرنا چاہتے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ او آئی سی سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے کہا کہ یہ اجلاس بہت اہم تھا اس کے اثرات دور تک ہوں گے۔ اجلاس بڑی کامیابی تھی جس میں دنیا بھر کی نمائندگی شریک تھی۔ اجلاس کے شرکاء نے افغان عوالم کی مدد کا عزم کیا ہے۔ افغان عوام کی مدد کریں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کو کامیاب اجلاس کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہوں۔ اسلامی ترقیاتی بنک نے افغانوں کیلئے خاص اکائونٹ اوپن کیا ہے۔ امید ہے دنیا بھر سے اس اکائونٹ میں تعاون کیا جائے گا۔ اس کوشش کا سہرا پاکستان اور سعودی عرب کے سر ہے۔ افغانستان کیلئے قائم فنڈ میں تمام ممالک امداد جمع کرائیں گے۔ پاکستان نے 6 نکاتی حکمت عملی جاری کردی۔ ایجنڈے میں کہا گیا ہے کہ او آئی سی ممالک کو فوری طور پر افغان عوام کی مدد کرنا ہوگی۔ افغانستان میں تعلیم، صحت و تکنیکی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ یو این اور او آئی سی کا گروپ بنا کر افغانستان کو جائز بنکنگ سہولیات تک رسائی میں مدد دی جائے۔ افغان عوام کو خوراک کی فراہمی اور فوڈ سکیورٹی کے فوری اقدامات کئے جائیں۔ انسانی حقوق پر افغان حکام کو ساتھ ملایا جائے۔ افغانستان میں دہشت گردی کی روک تھام کیلئے افغان حکام سے مل کر کام کیا جائے۔ افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین و لڑکیوں کے حقوق پر افغان حکام کو انگیج کیا ۔ وزیراعظم عمران خان سے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی ملاقات ہوئی، وزیر اعظم سے ایران، ترکی اور ملائیشیا کے وزرائے خارجہ کی بھی ملاقات ہوئی۔ جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود سے بھی وفود کی ملاقاتیں ہوئیں۔ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے دوران ممالک کے مابین دیرینہ تعلقات اور افغانستان سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گی
اسلام آباد (آئی این پی + نوائے وقت رپورٹ) پاکستان اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب، او آئی سی نے افغانستان کی امداد کے لیے خصوصی اسلامک ڈویلپمنٹ فنڈ کی منظوری دے دی۔ ٹرسٹ فنڈ کی تجویز پاکستان نے دی جسے اجلاس کے شرکاء نے منظور کرلیا۔ او آئی سی ٹرسٹ میں تمام رکن ممالک مالیاتی حصہ ڈالیں گے۔ او آئی سی رکن ممالک کے افغانستان کی علاقائی سالمیت، آزادی، استحکام اور قومی یکجہتی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ افغانستان میں بگڑتی انسانی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری پر افغانستان میں انسانی بنیادوں پر فوری امداد پر زور دیا گیا۔ او آئی سی رکن ممالک کے افغانستان کی علاقائی سالمیت، آزادی، استحکام اور قومی یکجہتی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ افغانستان میں جامع قومی حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا گیا جو کہ معتدل ہو اور اس کی ٹھوس ملکی و غیر ملکی پالیسیاں ہوں جو پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی سوچ رکھے۔ سعودی عرب نے بھی افغانستان کے لیے ایک ارب ریال کی امداد کا اعلان کیا۔ اسلام آباد میں اتوار کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں افغانستان میں انسانی صورتحال کے حوالے سے ایک قرارداد کی منظوری دی گئی اور بعدازاں اعلامیہ جاری کیا گیا کہ جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ نے اسلامی کانفرنس کی صدارت کی جس میں پاکستان کی جانب سے اس کانفرنس کے انعقاد کو سراہا گیا۔