سقوطِ ڈھاکہ

Dec 20, 2021

 (گزشتہ سے پیوستہ)
 جس طرح ایک سے زیادہ قومی یا دفتری زبانیں رکھنے میں کوئی ایسی بڑی قباحت نہیں تھی، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرقی حصے کی آبادی متحدہ پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد ہونے کے باوجود وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ تھی۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق 1955-60 ء کے پانچ سالہ منصوبہ میں 55 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31 فیصد خرچ کیا گیا۔ 1970 ء کے الیکشن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی حکومت نے اپنے تحفظات کی بنا پر مجیب کو حکومت دینے سے انکار کر دیا۔ 25 مارچ 1971ء کو اس وقت کی فوجی حکومت (جنرل یحییٰ) نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن (آپریشن سرچ لائیٹ) کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں بنگالی عوام کا جو حصہ متحدہ پاکستان کے حق میں تھا وہ بھی  پاکستان کے خلاف ہو گیا۔ 
میدان جنگ کی بات کریں تو وہاں بھی پاکستان کی اس وقت کی قیادت کے بہت سے فیصلوں پر بڑے بڑے سوالیہ نشانات نظر آتے ہیں۔  بھارت کے اس وقت کے فیلڈ مارشل مانک شا کے مطابق ضرورت پڑنے پر پاکستان پر ایک مکمل حملہ اور مکمل جنگ کرنے کا فیصلہ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپریل 1971 ء میں ایک کیبنٹ میٹنگ میں کر لیا تھا جس میں ان کے علاوہ فارن منسٹر سردار سورن سنگھ، وزیر دفاع جگ جیون رام، وزیر زراعت فخرالدین علی اور وزیر مالیات یشونت رائو موجود تھے۔معلوم نہیں کہ ہماری انٹیلی جنس کو یہ معلومات نہیں ملی تھیں یا ہماری قیادت نے ان معلومات کو سنجیدگی سے نہیں لیا؟ لیکن دوسری جانب ہم نے امریکہ اور چین سمیت دوسرے دوست ممالک کی نصیحت کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا، جو سب مل کر ہمیںبار بار مسئلے کے سیاسی حل کا مشورہ دے رہے تھے۔ الٹا پاکستان نے تین دسمبر کو مغربی محاذ پر بھارت پر زمینی اور فضائی حملہ کر دیا۔  اس حملے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مشرقی حصے میں افواج پر سے دبائو کم کیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس وقت کی پاکستان حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی حصے سے کیا جائے ۔ اول تو ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر موجود مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں کرنے کی پالیسی ہی احمقانہ تھی۔ ( مشرقی پاکستان کے عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں اس پالیسی نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا تھا، خاص طور پر 1965ء کی جنگ کے دوران)۔ ویسے بھی اگر بھارت پر پیشگی حملہ کرنا ہی تھا تو اسکا بہتر وقت اپریل سے جون کے مہینے میں تھا۔ اپریل کے ماہ میں ہمالیہ کے راستے کھلے ہوتے ہیں اور بھارت کو یہ ڈر رہتا کہ کہیں چین اس راستے سے کوئی عملی اقدام نہ کر دے ۔ اس طرح بھارت کی فوج کا بڑا حصہ وہاں بندھ جاتا۔ دوسرے ان مہینوں میں پنجاب ہریانہ اور اتر پردیش میں فصلوں کی کٹائی ہو رہی ہوتی ہے۔  اگر اس وقت پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی تو بھارت میں فصلوں کی کٹائی شدید متاثر ہوتی اور اسے قحط کا سامنا کر نا پڑ سکتا تھا۔ علاوہ ازیں اپریل مئی کے مہینوں میں مشرقی پاکستان میں مون سون کی وجہ سے  چھوٹے چھوٹے دریا سمندر بنے ہوتے ہیں اور زمین دلدل ۔ پاکستان کی حکومت نے جس غلط وقت پر مغربی محاذ کھولنے کی حماقت کی تھی اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز سب کچھ بھارت کی مرضی سے کر رہے تھے۔ یعنی پلاننگ اور وقت بھارتیوں کی مرضی کا تھا لیکن محاذ پاکستانی حکومت کھول رہی تھی۔
اسی طرح اقوام متحدہ میں جس طرح پاکستان نے اپنا مقدمہ لڑا وہ بھی سمجھ سے باہر ہے۔ اس وقت سیکیورٹی کونسل میں دو قراردادیں زیر غور آئیں۔ ایک برطانیہ اور فرانس نے مل کر پیش کی تھی جس میں جنگ بندی اور مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیا گیا تھا اور دوسری قرارداد پولینڈ کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس میں سیاسی حل کے ساتھ ساتھ بھارت اور پاکستان کے مابین بھی جنگ بندی اور مغربی پاکستان سے بھارتی فوج کے انخلا پر زور دیا گیا تھا۔ ان میں سے کسی ایک قرار داد کو مان لیا جاتا تو شاید پاکستان ہتھیار ڈالنے سے بھی بچ جاتا اور نوے ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں بھی نہ جاتے۔ اس کی بجائے اقوام متحدہ میں مسٹر بھٹو نے نہایت سخت لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ ’ مجھے اس تنظیم سے نفرت ہے، میں ان کی شکلیں دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس سے بہتر ہو گا کہ میں ایک تباہ شدہ پاکستان میں واپس چلا جائوں‘ ( نیو یارک ٹائم، 15دسمبر1971 ئ)۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ کیا فرق پڑتا ہے اگر سقوط ڈھاکہ ہو جائے؟ کیا فرق پڑتا ہے اگر مشرقی یا مغربی پاکستان تباہ ہو جائے؟ ہم ایک بار پھر سے پاکستان بنا لیں گے۔ میں یہ سب مغربی پاکستان کے مصدقہ لیڈر کے طور پر کہہ رہا ہوں کیونکہ مغربی پاکستان کے لوگوں نے مجھے اس سے زیادہ شاندار طریقے سے منتخب کیا ہے جس سے کہ مشرقی پاکستان کے عوام نے مجیب الرحمن کو منتخب کیا ہے، مگر اسے (مجیب کو) اس کا ادراک نہیںہے۔ میں یہاں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا، بلکہ میں پاکستان واپس جا رہا ہوں۔‘‘ جذباتی طور پر خوبصورت نظر آنے والے ان فقروں پر غور کیا جائے ان سے واضح طور پر یہ مطلب نکلتا ہے کہ مسٹر بھٹو نے تمام دنیاکو یہ پیغام دیا تھا کہ’’ اُدھرتم؛ اِدھر ہم‘‘۔ اور وہ مغربی پاکستان کے لیڈر کے طور پر سیکیورٹی کونسل کو بتا رہے تھے کہ وہ سقوط ڈھاکہ کو تسلیم کر چکے ہیں۔ اس کے بعد کے جذباتی فقرے تو مغربی پاکستان کے عوام کو رام کرنے اور بیوقوف بنانے کے لیے بولے گئے تھے۔ہم اس تقریر پر بہت فخر کرتے ہیں اور آج بھی وہ لمحہ بار بار دکھاتے ہیں جب مسٹر بھٹو اپنے نوٹس پھاڑ کر سیکیورٹی کونسل سے باہر آ گئے تھے۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس جذباتی تقریر سے ملا کیا؟ وہ سیکیورٹی کونسل تھی ، پاکستان کا کوئی انتخابی جلسہ نہیں۔( شاید مسٹر بھٹوکے لیے انتخابی جلسہ ہی تھا)۔ کہاں گئیں وہ ہزار سال لڑنے کی باتیں؟ اور کیا ہوا بنگلہ دیش کو کبھی تسلیم نہ کرنے کا دعویٰ۔ یاد رہے کہ اس وقت عملی طور پر ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ ہو چکا تھا لیکن مغربی پاکستان کے عوام تمام حالات سے بے خبر تھے۔ یہاں تک کہ سقوط ڈھاکہ کے اگلے روز مقامی اخبارات میں جنرل یحییٰ خان کا یہ بیان شہ سرخی کی شکل میں شائع ہوا تھا کہ ’’ فتح تک جنگ جاری رہے گی‘‘۔اور اس سب پس منظر اور بڑی بڑی جذباتی باتوں کے بعد22  فروری 1974ء کو مسٹر بھٹو ہی کی سربراہی  میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔ اس سب کو پچاس سے زیادہ برس گزر چکے ہیں لیکن جس طرح اس زمانے میں ملک کے مغربی حصے (موجودہ پاکستان ) میں سنسرتھا اور عوام کو 16دسمبر کے بعد ہی معلوم ہوا کہ  مشرقی حصے میں کیا قیامت بیت چکی ہے، اسی طرح مغربی بازو کے عوام آج بھی سچ کی تلاش میں ہیں اور حکمران آ ج بھی نہیں سمجھے کہ عوام کی جانب سے آئین میں دیے گئے انسانی اور شہری حقوق کا مطالبہ کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیںہوتا کہ کوئی ریاست کا غدار ہے۔

مزیدخبریں