کرونا وباء ، صحت کارڈ اور علاج معالجہ


کرونا وباء سے لڑتے لڑتے گزشتہ پورا سال گزر گیا بلکہ رواں سال 2021بھی گزرنے والا ہے ۔ کرونا نے پوری دنیا کانقشہ ہی بدل کردیا ہے بلکہ ہر ملک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ترقی یافتہ ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اپنے مستحکم وسائل کے پیشِ نظر اپنی معیشتوں کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا لیکن وہیں پر تھرڈ ورلڈ ممالک کی معیشتوں کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ہے بلکہ وہ ممالک گوناں گوں معاشی مسائل سے بھی دو چار ہیں ۔اپنے عوامل کی وجہ سے مہنگائی کو پنپنے کا موقع ملا۔ہمارا ملک بھی دنیا کے انہی غریب ممالک میں شامل ہے جوترقی یافتہ نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنی معیشت کوسنبھالنے میں مصروفِ عمل ہے ۔ایسے حالات میں اگر حکومت عوام کو علاج معالجے کی سہولیات بہم پہنچاتی ہے تو یہ میرے خیال میں ایک انتہائی غریب پرور اور نیک عمل ہوگا۔پاکستان میں ہر صوبائی حکومت اپنی بساط کے مطابق عوامی اور فلاحی منصوبوں پر کام کرتی ہے لیکن میں آج بات کروں گا صرف پنجاب حکومت کی جس نے غریب عوام کی فلاح و بہبود سے ہٹ کر صوبے کے 36اضلاع کی 11کروڑ آبادی میں سے 3کروڑ خاندانوں کیلئے جس ’’نیا پاکستان صحت کارڈ‘‘ سکیم کا اجرائ￿ کیا ہے وہ کسی تنقید کے بجائے ایک غریب پرور احسن اقدام ہے۔یہ جان کر دلی اطمینان ہوا ہے کہ مسائل میں گھرے ہوئے اس ملک میں عوام کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح علاج معالجے کی سہولیات کا اجرائ￿ کیا گیا ہے ۔ یوں آئندہ سال مارچ تک پنجاب میں ہر خاندان کو صحت کارڈ کی سہولیات میسر آئیں گی جس سے سالانہ 10لاکھ روپے تک کا وہ علاج معالجہ کروا سکیں گے ۔ پنجاب میں ہیلتھ انشورنس پر 3سال میں 440ارب روپے خرچ ہوں گے ۔یونیورسل ہیلتھ پروگرام سے ملک بھر میں ہسپتالوں کاجال بچھ جائے
 گا۔وزیر اعظم کے بقول غریب گھرانے میں جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے اورجب کوئی اپنے پیارے کاعلاج نہیں کروا سکتا تواس خاندان کی بے بسی کا کیا عالم ہوتا ہے،اس کا ہمیں بخوبی ادارک ہے۔ بد قسمتی سے ماضی میں ہماری امرا کلاس حکومتوں نے عام آدمی کی کوئی فکر نہیں کی۔ اصل میں فلاحی ریاست بنتی ہی اس وقت ہے جب پیسے کی ریل پیل ہو لیکن مدینہ میں تو پیسے ہی نہیں تھے لیکن وہاں پر پہلے انسانیت لائی گئی پھر پیسہ لایا گیا۔ جب  کی مخلوق کی خدمت کی جائے تو  بھی خوش ہوتا ہے۔اس لیے میرے خیال میں یہ جو ایک ہیلتھ سسٹم بنایا گیا ہے اس سے دیہات کی سطح پر بہتری آئے گی اورپرائیویٹ شعبہ ہسپتال بنائے گا جہاں سے غریب اپنا علاج کروا سکے گا اور ملک میں
 ہسپتالوں کا جال بچھ جائے گا۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے گورنر ہاوس میں گزشتہ روز اس ’’نیا پاکستان صحت کارڈ‘‘سکیم کاباضابطہ اجرائ￿ کر دیا ہے ۔بلاشبہ ملک میں کرونا ، پھر ڈینگی اس کے بعد ٹڈی دل اوراب اسموگ جیسے سنگین حالات نے پنجاب میں ایک افراتفری پھیلا رکھی ہے۔اس کے باوجود صحت کارڈ کا اجرائ￿ عوام الناس کیلئے ایک نوید صبح ہے ۔ اگرچہ ماضی میں پنجاب کا صحت کا بجٹ 169ارب روپے تھا لیکن اس حکومت نے اب اس کو بڑھا کر 399ارب روپے تک کردیا ہے ۔ اس سکیم کا آغاز ڈیرہ غازی خان اورساہیوال ڈویڑنوں میں پہلے ہی کیا جا چکا ہے جسے اب آئندہ سال سے پنجاب کے سات ڈویڑنوں تک بڑھا دیا گیا ہے ۔صوبے میں پہلی بار صحت کے شعبے کیلئے کثیر رقم مختص کی گئی ہے ،لاہور اورپسماندہ اضلاع میں 8زچہ بچہ ہسپتال قائم کئے گئے ہیں۔بڑی اچھی بات ہے کہ موجودہ حکومت نے صحت کے شعبے میں ملتان نشتر ٹو،ڈی جی خان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی راولپنڈی،رحیم یار خان میں شیخ زید ہسپتال ٹو اور راولپنڈی ، بہاولپور میں ڈینٹل کالجز تعمیر کئے ہیں۔فیروزپور روڈ پر ایک نئے 1000بستروں کے ہسپتال کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔ حکومت نے تین سالوں میں 25ہسپتال بنائے ہیں ۔158صحت یونٹس بنائے اورمنڈی بہا الدین کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرزہسپتال کی فنشنگ مکمل کرائی ۔ چنیوٹ ، حافظ آباد اور چکوال میں نیا ڈی ایچ کیو تعمیر کیا۔ضلعی ترقیاتی پیکیج میں 91نئی صحت سکیمیں اور 78نئی صحت سہولیات شامل کی گئیں ۔موجودہ حکومت نے تین سالوں میں 14سوشل سکیورٹی ہسپتال تعمیر کئے جس سے اب 23سوشل سکیورٹی ہسپتالوں سے صنعتی کارکنا ن مکمل طور پر صحت کی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
قارئین دورِ حاضر میں انجیو پلاسٹی ،برین سرجری اور کینسر وہ بیماریاں ہیں جن سے عموماً غریب عوام اخراجات پورے نہ ہونے کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں لیکن اب ان تمام بیماریوں کا ہر کوئی علاج کرا سکے گا۔صحت کارڈ رکھنے والے شخص کو علاج کیلئے ہسپتال جانے کا ایک ہزارروپے آمدورفت کا خرچہ بھی دیا جائیگا۔اس پروگرام کی نگرانی کیلئے ایک نیشنل سٹیئرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں قومی ، صوبائی اورعلاقائی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹس کے نمائندے شامل ہوں گے۔صحت کارڈ کے ذریعے ادا کی جانے والی رقم ہیلتھ انشورنس کمپنی کے ذریعے ادا کی جائے گی۔جس میں سرکاری اورغیر سرکاری ہسپتال دونوں شامل ہوں گے جو ہیلتھ کارڈ جاری کیا جا رہا ہے یہ نادرا کے ریکارڈ سے منسلک ہوگا۔حکومت پنجاب نے اس سلسلے میں اسٹیٹ لائف انشورنس سے معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق کسی بھی شخص کے علاج معالجے کی رقم فوری طور پر بھی ہسپتال کو اسٹیٹ لائف انشورنس سے فراہم کر دی جائے گی۔معاہدے کی رو سے اسٹیٹ لائف انشورنس کے پاس رجسٹرڈ افراد کا 1998ئ￿ روپے سالانہ کے حساب سے پریمیم پنجاب حکومت ادا کر رہی ہے ۔حکومت کواپنا جانچ پڑتال کا نظام  بھی بہت ٹھوس اور بہتر کرنا ہوگا کیونکہ ذرا سی بھی کوتاہی سے اس سکیم کی افادیت اوراہمیت متاثر ہوسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن