ہینڈی کرافٹ پارک

رانازاہد اقبال فیصل آباد
         گزشتہ ایک دو دہائیوں کے دوران تیزی سے رونما ہونے والی جیو پالیٹیکل چینجز تقاضا کرتی ہیں کہ ملکی معیشت پران کے اثرات پر گہری نظر رکھی جائے۔ چین چھ بڑے راستوں پر مشتمل بیلٹ اینڈ روڈ پر کام کر رہا ہے جس میں پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ شامل ہے۔ ان میں سے بعض کی تکمیل ہو چکی ہے اور بعض پر کام جاری ہے۔ یہ منصوبہ یورپ اور ایشیا کی سر زمین پر سفر کے نئے راستے کھول دے گا۔یہ تبدیلی ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے مواقع سے منسلک ہیں۔ انفرا سٹرکچر اور صنعتوں کی ترقی، زراعت کی بہتری اور دنیا کے لئے پاکستان میں نئے مواقع اس منصوبے کے ثمرات ہیں۔
      ہمارا ملک ایک دلچسپ دورسے گزر رہا ہے۔ ہمیں حالیہ سیاسی و معاشی تغیرات کا فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری اصلاحات کر لینی چاہئیں۔ 
دنیا بھر کے امپورٹرز کو راغب کرنے کے لئے سی پیک کے تحت بننے والی بیلٹ اینڈ روڈزپر ہینڈی کرافٹ پارک بنائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے ہینڈی کرافٹ پارک میں زیادہ تر پیکنگ اور ایکسپورٹ کا کام ہونا چاہئے جہاں غیر ملکی خریدار اپنے سامنے پروڈکٹ تیار کرا سکتے ہوں اور اپنے سامنے ہی سی سی ٹی وی کیمرے کی نظر میں پیکنگ بھی کرا سکیں، یہاں تک کہ انہی علاقوں میں جننگ، سپننگ، ویونگ، ڈائینگ، پیکنگ وغیرہ کے تمام مراحل طے کئے جا سکتے ہیں۔ پارک سے سیدھے کنٹینر لوڈ کرنے کی سہولت بھی ہونی چاہئے۔ اس سے جہاں ایکسپورٹ بڑھے گی وہیں متعلقہ علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ٹیکسٹائل کلسٹر بھی بننے چاہئیں۔ غیر ملکی خریدار جب اپنے سامنے پراڈکٹ بنتے دیکھ سکیں گے ، ایسی سہولت دینے سے ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔  اس کے علاوہ برآمدی یونٹوں کے لئے ترغیبات اور اندرون ملک تجارتی ترقی کے لئے مراعات سمیت  ہینڈی کرافٹ پارک میں ہر سال نمائش جیسے متعدد اقدامات کئے جا سکتے ہیں جن سے برآمدات بڑھانے میں مدد ملے۔اس وقت اندازے کے مطابق عالمی مارکیٹ میں ہماری برآمدات کی ڈیمانڈ میں 30 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہماری درآمدات برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی ہیں جس سے ملکی تجارتی خسارہ بہت بڑھ گیا ہے۔ برآمدی تجارت کے لئے ملنے والے آرڈرز کی بروقت تکمیل ، کوالٹی کی اچھی طرح چھان پھٹک ، کارخانوں کے ماحول کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کر کے زر مبادلہ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔  اس کیلئے ایکسپورٹ انڈسٹری کے خام مال کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ پچھلے کئی برسوں سے جاری تجارتی خسارے سے قومی معیشت کو لاحق خطرات دور کرنا ہی ہمارے اکنامک مینیجرز کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔ انہیں ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہئے کہ درآمدات و برآمدات کا عدم توازن دور ہو، برآمدات میں قیمتوں اور کوالٹی کے اعتبار سے دوسرے ممالک کے ساتھ مسابقت ممکن ہو۔جس سے کاروبار کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو گھٹا کر بین الاقوامی مسابقتی سطح پر لایا جا سکے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل ہمارے لئے بڑی اہم ہے اس سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے بروقت اقدامات کر لینے چاہئیں۔ سی پیک کی تکمیل کے بعد اپنے ملک کو اس خطے میں ٹرانس شپمنٹ کا مرکز بنا یا جا سکتا ہے ۔ جبکہ تجارتی مال کی دونوں طرف ترسیل کرتے ہوئے ، دس بیس سال میں ملک میں غربت کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ 
       ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ای پیپر دی نیشن