ترکی کے شہر اناطولیہ میں سمندر سے گفتگو 


تا حد نگاہ پھیلا وسیع و عریض سمندر جو پانی سے لبریزاس قدر ر طاقتور کہ لمحہ بھر جو طیش میں آئے تو ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے کر ڈبو دے اور کمزور اتنا کہ کناروں کی حدود میں ان دیکھی زنجیروں سے لپٹا ہوا۔
بے بسی سے ساحل کو دیکھتا ہے۔ آج فرصت کے لمحات میں اسکے پاس جا کر اس کی شانتی دیکھ کر میں نے اسکے نرم پانی کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر اسلام و علیکم کہا تو اسکی لہروں نے قدرے حیرت سے مجھے دیکھا اور پھر سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ اداسی سے کہنے لگا صدیوں بعد آج کسی انسان نے مجھے عزت اور تکریم سے اور محبت سے یوں سلام کیا ہے تو جیسے میری شوریدہ سر لہروں کو قرار ملا ہے کیونکہ ایک میں ہی کیا کائنات کی ہر شے رب تعالی کے ذکر اور سلام سے مسرت محسوس کرتی ہے میں نے مسکرا کر محبت سے اسکی لہروں کو چھوا تو وہ لہرا کر میرے قدموں کو چھو کر واپس پلٹ گئیں ... میں نے اسکی لہروں کو± دیکھا اور پھر پوچھا رب تعالی نے اس کرہ¿ ارض پر تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی رکھی ہے اور رب تعالی نے ہر شئے کو حد میں رکھا ہے۔
اسکے شانت موڈ میں قدرے تبدیلی آئی اور اس کی لہروں نے جھاگ اڑا کر ساحل پر پڑے پتھروں سے سر ٹکرا کر سسک اٹھیں اور وہ یکدم غصے سے بولا ہاں ہم سب اپنی حدود میں رہتے ہیں ماسوا آپ انسانوں کے پھر کچھ دیر خاموش رہ کر کہنے لگا انسان جب اپنی حدود سے باہر نکل کر میرے پاس آتے ہیں ناں تو دل چاھتا ہے کہ ان سب کو لہروں میں جکڑ کر ڈبو دوں مگر مجھے اللہ کی طرف سے اجازت نہیں۔اوہ اچھا میں نے آسمان کی طرف دیکھ کر شکر الحمد للہ کہا تو وہ بولا بس انسان کے پاس یہ مقدس الفاظ ۔ہیں جو ادا کر کے وہ رب کی رحمت کی پناہ میں آ جاتا ہے اور کائنات میں پھیلے شر کی طاغوتی طاقت سے بچا رہتا ہے۔ وگرنہ انسان اس دور میں اپنی انسانیت کے معیار سے بہت نیچے گر چکا ہے۔میں نے کہا۔بے شک انسان خطاکار ہے گنہگار ہے مگر رب کائنات رب تعالیٰ رحیم و کریم اور غفور رحیم ہے۔
 میں نے کہا ایک سوال پوچھوں تو اس نے مسکرا کر کہا ضرور پوچھو۔ میں نے کہا میں اکثر دیکھتی ہوں کہ آپ کتنے رنگ بدلتے ہیں کہیں گہرا سبز زمرد جیسا کہیں گہرا نیلا کہیں مٹی جیسا گدیلا کہیں گہرا کالا اور کہیں سفید سپید رنگ ایسا کیوں ؟اس نے گہرا سانس بھرا اور پھر کہنے لگا سنو اچھی اور حساس انسان۔ رب تعالی نے ہر شے کو اسکی فطری جبلت کیساتھ پیدا فرمایا ہے۔ میری فطرت میں کئی رنگ سموئے ہیں سبز زمرد جیسا رنگ میرے شانت ہونے اور سکون سے بہنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ نیلا رنگ میں اوڑھتا ہوں جب آسمان کی نیلاہٹ کو اپنے اندر گ±ھلا محسوس کرتا ہوں یہ میری فلک کی و±سعتوں سے محبت ہے مجھے آسمان سے محبت ہے۔ مٹی جیسا گدیلا تب ہوتا ہوں جب مٹی میرے اندر جذب ہو کر مجھے اپنے د±کھ س±نا تی± ہے تو میں بھی اس کے ساتھ نادم ہو کر مٹی ہو جاتا ہوں۔ کالا رنگ میرے غیض و غضب کو ظاھر کرتا ہے اور پھر میں خود اپنی بھی نہیں س±نتا میں اس کی آواز میں چھپے غصیلے سے انداز کو محسوس کر رہی تھی مگر خاموش رہی وہ پھر کہنے لگا تم انسانوں کے لئے اللہ تعالی نے ہر شے کو مسخر کر دیا ہے مگر پھر بھی تم لوگ بہت کم اللہ کے شکر گزار ہوتے ہو میں نے ہونہہ کہہ کر شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ وہ بولا سفید رنگ مجھ میں پاکیزگی اور عشق کے نور کو ظاہر کرتا ہے میں نے بے یقینی سے اسے دیکھا تو وہ مدہم لہجے میں گویا ہوا۔ میں ماہ کامل کی چاہ میں پاگل ہوں چاند کی چاہ میرے اندر روشنی پاکیزگی اور نور کی سپیدگی گھول دیتی ہے اور پھر میں عشق و نور کا منبع بن جا تا ہوں۔ میں نے گہرا سانس بھرا اور بولی مقدس عشق کائنات کا سب سے حسین تحفہ ہے وہ بولا ہاں کچھ دیر ہم دونوں خاموش رہے۔ پھر میں نے کہا انسانوں کے لئے کوئی پیغام انسانوں سے کوئی شکایت ؟
وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا۔ دیکھو یہ جو ساحل پر رنگ برنگے پتھر پڑے ہیں ناں یہ میری ساتھی لہریں جانے کہاں کہاں سے ا±ٹھا کر لاتی ہیں دیکھا جائے تو یہ چھوٹے بڑے پتھر ساحل کی خوبصورتی بڑھاتے ہیں مگر۔ میں نے جلدی سے کہا مگر کیا؟ تو وہ پھر جیسے تھوڑا غصے میں آیا اس کی لہروں نے بھی غصے کے اظہار میں اس کا ساتھ دیا اور پھر جیسے آسمان کی طرف دیکھ کر شکستگی سے بے بسی سے ساحل پر سر پٹخ کر سسک ا±ٹھیں تو وہ بولا جب انسان انھی پتھروں کو بطور شغل ا±ٹھا کر پورے ذور سے میری طرف پھینکتے ہیں تو میں اور میری لہریں انکی چوٹ سے زخمی ہوتی ہیں درد محسوس کرتی ہیں۔ پتھر کے پھینکنے کے بعد جو لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے وہ ا±ن کی تکلیف کا اظہار ہوتا ہے خوشی کا اظہار نہیں۔کیا آپ لوگوں کو احساس نہیں کہ ہم بھی جان رکھتے ہیں اور یہی پتھر اکثر میرے اندر سانس لیتی چھوٹی سمندری مخلوق کو زخمی کرتے ھیں اور انکی جان بھی لے لیتے ہیں۔ بے اختیار میرے منہ سے اوہ نکلا میں شرمسار ہو گئی کیونکہ کل ساحل پر میں اور میرے بچوں سمیت وہاں کئی لوگ بلا وجہ یہی شغل فرما رہے تھے۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا کر کہا بہت معذرت بہت بہت معذرت۔وہ کہنے لگا تم انسان بہت سنگدل ہو۔ ظالم ہو سفاک ہو جانے انجانے ہر ذی روح کو تکلیف دیتے ہو اور احساس تک نہیں کرتے میں نے شرمندگی سے کہا میں آپکا یہ پیغام انسانوں تک پہنچا دونگی اور اب میں کبھی ایسا نہیں کروں گی آپ مجھے میرے بچوں اور باقی سب انسانوں کو لاعلم انجان جان کر معاف فرما دیں وہ مسکرا کر بولا ٹھیک ہے۔ 
یہ کہہ کر میں نے اس کی لہروں پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا اب اجازت چاہوں گی زندگی رہی تو پھر کسی ساحل پر آپ سے بات ہو گی۔ پھر میں بوجھل قدموں سے واپس مڑ گئی اس نے اور ہر قطرے ہر لہر نے اور سمندری مخلوق نے بلند آواز سے اللہ حافظ کہا تو ساحل سمندر کی ساری فضائیں اللہ کے پرنور نام سے مہکنے لگیں۔ 

ای پیپر دی نیشن