ارجنٹائن فرانس کو ہرا کر تیسری بار فٹبال کا عالمی چیمپئن بن گیا
قطر میں فیفا ورلڈ کپ فٹبال کے فائنل میں ارجنٹائن نے فرانس کو شکست دے کر ورلڈ کپ پر یورپی اجارہ داری ختم کر دی۔ فائنل میں فرانس کو ہرا کر لیونل میسی کا ورلڈ کپ جیتنے کا خواب پورا ہو گیا اور ارجنٹائن کے عوام خوشی میں رقص کرتے میسی کی تصویریں اُٹھائے جشن مناتے رہے۔ دوسری طرف فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون جو قطر میں فائنل دیکھنے آئے تھے اپنی ٹیم کے کپتان امباپے کو میدان میں آکرتسلیاں دیتے نظر آئے۔ قطر میں فیفا فٹبال ورلڈ کپ کے سارے میچ ہی سنسنی خیز رہے مگر فائنل بہرحال فائنل ہوتا ہے۔ کروڑوں فٹبال کے شائقین، ٹی وی سکرینوں سے جڑے بیٹھے رہے۔ عربوں کی روایتی مہمان نوازی اور قطر کے بہترین فول پروف انتظامات نے ثابت کر دیا کہ مسلم ممالک بھی دنیا کے کسی ملک سے زیادہ بہتر طریقے سے بڑے بڑے کھیلوں کے ایونٹس منعقد کر سکتے ہیں۔ اس طرح دنیا بھر میں مسلمانوں کے حوالے سے بعض ممالک کی طرف سے جو منفی تصویر کشی کی گئی تھی اس کا سحر بھی ٹوٹا اور دنیا نے دیکھا کہ مسلم ممالک میں بھی سب اچھا ہے۔ لوگ انسان دوست اور کھیلوں کے دیوانے ہیں۔ کہیں کوئی جبر نہیں۔ بس حدود و قیود کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایسا تو خود یورپ اور امریکہ میں ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں یہ سب قانون کے نام پر اور مسلم ممالک میں مذہب کے نام پر ہوتا ہے۔ بہرحال عرب ثقافت نے لوگوں کے دل موہ لیے۔ میچ کے اختتام پر لیونل میسی کو ٹرافی دی گئی تو انہیں روایتی عربی جبہ پہنایا گیا جو ان پر خوب جچا۔ میسی اور رونالڈو دنیا کے وہ فٹبالر ہیں جو مسلم دنیا اور خاص کر عربوں میں بے پناہ مقبول ہیں کیونکہ دونوں کی فلسطین سے محبت اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی دلیرانہ کوششوں کو بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ ورلڈ کپ کی اختتامی تقریب بھی پریوں کے دیس کی تقریبات لگ رہی تھیں۔ رنگ و نور اور دنیا بھر کی مختلف ثقافتوں کا حسین امتزاج آنکھوں کو خیرہ کرتا رہا۔ جس پر قطر کی حکومت اور عوام مبارکباد کے مستحق ہیں۔
٭٭٭٭٭
بی جے پی کے رہنما نے بلاول کے سر کی قیمت 2 کروڑ لگا دی
چہ پدی چہ پدی شوابہ ۔ بے شک بھارت کو ہمارے اندر بہت سے لے پالک میسر ہیں۔ مگر ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ صرف 2 کروڑ روپے کی خاطر کوئی اتنا بڑا قدم اٹھانے کا بھی سوچ پائے۔ 2 کروڑ کا تو پاکستان میں کسی سوسائٹی میں 5 مرلے کا گھر نہیں ملتا۔ اس پر تو بھارتی ایجنٹ بھی ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ کہتے نظر آئیں گے۔ یہ وزیر خارجہ بلاول کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی حق گوئی سے پورے بھارت میں بی جے پی والوں کو مرچیں لگ گئی ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول نے جس طرح عالمی سطح پر بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے اقلیتوں کے قتل عام کی درپردہ حمایت کو بے نقاب کرتے ہوئے اسے قصاب کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا اس پر بھارت میں سوگ منایا جا رہا ہے۔ بلاول کے خلاف جلسے جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ اب بلاول کے سر کی قیمت صرف 2 کروڑ لگا کر بی جے پی اتر پردیش کے اس رہنما نے نہایت چھوٹی سوچ اور اپنے بنیا ہونے کاثبوت دیا ہے۔ اتنے بڑے کام کے لیے اتنی قیمت بہت تھوڑی ہے۔ بہرحال مودی کو قصاب ہٹلر اور قاتل قرار دے کر بلاول نے جس جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر پاکستان کے مختلف شہروں میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ان کے حق میں ریلیاں نکال کر ان سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ بسااوقات کسی کا ایک جملہ اسے مقبول بنا دیتا ہے۔ بلاول کا ایک جملہ بھی اسے مقبول بنا گیا۔ ورنہ ہمارے کئی سیاسی رہنماء دن رات بھارت کے خلاف تقریریں کرتے ہیں مگر انہیں یہ مقبولیت نہ مل سکی۔ بے شک ’’ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں‘‘
٭٭٭٭٭
وفاقی حکومت گرانا چاہتا ہے۔ نوٹوں سے بھرے بریف کیس بھجوائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر
اب یہ وقت بھی آنا تھا۔ جب آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اسلام آباد کے حکمرانوں پر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں نوٹوں کی بوریاں بھر بھر کر مظفر آباد لانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب اسلام آباد سے بدلے ہوئے تیور کے ساتھ وفاقی سیکرٹری کی سطح کا کوئی بندہ کوہالہ پل پار کر رہا ہوتا تھا تو مظفر آباد میں حکومت تبدیل ہو جاتی تھی۔ مفت میں سارا کام ہو جاتا تھا۔ نہ رشوت نہ لالچ نہ دھونس بس صرف ناراض ہونے سے سارا سیٹ اپ بدل جاتا، مگر اب پاکستانی سیاست کا اثر لگتا ہے آزاد کشمیر پر بھی ہو گیا ہے۔ خود وہاں کے وزیر اعظم تنویر الیاس بھی ایسے الزامات کی زد میں رہے ہیں کہ انہوں نے یہ وزارت عظمیٰ کی خلعت فاخرہ یونہی حاصل نہیں کی۔ اس کے عوض نوٹوں سے بھری بوریاں نہیں گاڑیاں بھجوائی تھیں۔ ورنہ سیاسی قدو کاٹھ میں بہت سے اچھے امیدوار بھی میدان میں تھے مگر تاج ان کے سر سجایا گیا۔ اس پر آزاد کشمیر کے ایک سابق وزیر مشتاق احمد منہاس نے بڑا دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمایہ لگا کر عہدہ حاصل کرنے والا الزام لگا رہے کہ اسے ہٹانے کے لیے نوٹوں سے بھری بوریاں آ رہی ہیں۔ خیر یہ تو سیاسی چپقلش اور بیان بازی ہے۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پیسوں کے بل بوتے پر کسی صوبے کی حکومت گرائے۔ ویسے سوچنے کی بات ہے اگر ایسا کرنا اب آسان ہوتا تو پھر وفاقی حکومت پنجاب اور خیبر پی کے میں یہ سنہری فارمولا استعمال کیوں نہیں کرتی۔ یہ تو زیادہ آسان ہے۔ بہرکیف وزیر اعظم آزاد کشمیر ڈٹ جائیں۔ وہ خود بے تحاشہ دولت کے مالک ہیں وہ بھی تجوریوں کے منہ کھول دیں۔ باقی وزرا اور ارکان اسمبلی بھی ارب پتی ہیں سب مل کر اپنی حکومت بچانے کی کوشش کریں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
٭٭٭٭٭
پاکستانی باڈی بلڈر رمیز ابرہیم نے 3 ورلڈ ٹائٹل جیت لیے
سیروں خون بڑھانے والی اس خبر سے لطف اٹھائیں۔ کرکٹ کے بخار کو بھول جائیں۔ جہاں 5 روزہ میچوں کی سیریز کے آخری میچ میں بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حالت ڈانواں ڈول ہے ہارنے کا خطرہ سر پرہے۔ لہٰذا وہاں دل جلانے کی بجائے اس طرف آئیں اور عالمی سطح پر 3 ٹائٹل اپنے نام کرنے والے اس پاکستانی نوجوان باڈی بلڈر کو خراج تحسین پیش کریں جو تن سازی کے کھیل کو حکومت کی بھرپور سرپرستی نہ ملنے کے باوجود دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ 39 ویں ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ جو بنکاک میں جاری ہے۔ یہ کارنامہ رمیز ابراہیم نے وہاں انجام دیا۔ اس کے علاوہ ایک اور تن ساز احسن اسلم نے بھی فزیک کیٹیگری میں گولڈ میڈل حاصل کیا جبکہ ابھی انہوں نے دو اور کیٹیگریز میں حصہ لینا ہے۔ دعا ہے وہ ان میں بھی گولڈ میڈل حاصل کر کے ایک ریکارڈ بنائیں کہ پاکستان کے دو تن سازوں نے مختلف مقابلوں میں ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے 3 تین گولڈ میڈل جیتے۔ ہمارے نوجوانوں کی مختلف کھیلوں میں دلچسپی اور عالمی سطح پر ان کی پذیرائی دیکھ کر لگتا ہے کہ کرکٹ سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ہمیں نوجوان کھلاڑیوں کی ہر کھیل میں پذیرائی کرتے ہوئے ان کی بھرپور کوچنگ کر کے تربیت کا بہترین ماحول دینا ہو گا۔ پھر دیکھیں کونسا ایسا کھیل ہے جس میں ہمارے نوجوان عالمی سطح پر اپنے ملک کا نام روشن نہیں کرتے۔ اقبال نے ایسے ہی جوانوں کے لیے کہا تھا۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند
بے شک یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ اب ہمارے کھیل کے میدان آباد ہو چکے ہیں تو جہاں کوئی گوہر نایاب ملتا ہے اس کو تراش کر دنیا کے سامنے لائیں اور اپنے انتخاب کی داد پائیں۔