ملک بھر میں سیاسی عدم استحکام اپنے عروج کو پہنچا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے معیشت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ یہ صورتحال افسوس ناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی کیونکہ ملک اور عوام اس کی بھاری قیمت چکارہے ہیں۔ معاملات کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کو اس بات کا احساس ہرگز ہے کہ وہ ملکی مفاد کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ ذاتی اور گروہی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ملکی مفاد کے بارے میں سوچیں اور ملکی مفاد کو ہر شے پر مقدم رکھیں لیکن ہو اس کے بالکل الٹ رہا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑنے کے لیے جو اعلان کیا ہے اس نے ایک نئی ہلچل پیدا کردی ہے اور مرکز میں قائم حکمران اتحاد اس کوشش میں لگ گیا ہے کہ کسی بھی طرح اسمبلیوں کی تحلیل کا عمل روکا جاسکے۔ اس حوالے سے خصوصی توجہ پنجاب کی اسمبلی پر دی جارہی ہے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر وزیراعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے بھی مشاورت کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں اتحادی جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی خصوصی طور پر ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ اتوار کو شہباز شریف نے اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد نواز شریف سے لندن رابطہ کر کے انھیں پنجاب کی سیاسی صورتحال پر آگاہ کرتے ہوئے ان سے بھی مشورہ کیا۔ دونوں قائدین میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ وفاق میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی مشاورت سے سیاسی حکمت عملی کو حتمی شکل دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے پنجاب کی صورتحال پر وزراء کو پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں سے رابطوں کا ٹاسک دیدیا۔ وفاقی وزراء پی ڈی ایم کی قیادت سے رابطہ کریں گے۔اس حوالے سے مسلم لیگ (قائداعظم) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کا کردار بھی اہم ہوگا۔
اسی لیے وزیراعظم اور سابق صدر آصف علی زداری نے چودھری شجاعت کے گھر جا کر سربراہ قاف لیگ سے بھی ملاقات کی۔ دونوں نے ملاقات میں پنجاب اسمبلی بچانے کی ذمہ داری چودھری شجاعت کو دینے پر اتفاق کیا۔ چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے معیشت کی بحالی اور عوام کے لیے ریلیف کے حوالے سے کوششوں کے بارے میں چودھری شجاعت کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر چودھری شجاعت نے ملک اور عوام کو مسائل سے نکالنے کے لیے وزیراعظم شہبازشریف کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا۔ ملاقات میں دونوں قائدین نے باہمی تعاون اور اشتراک عمل مزید بہتر اور مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پنجاب اسمبلی کو تحلیل سے بچانے کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران چودھری شجاعت کے گرین سگنل کے بغیر وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی سے رابطہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ادھر، سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل قمر باجوہ کے ساتھ جھگڑا میری ذات کا ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ اقتدار میں آکر ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ یہ بات انھوں نے کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے وفد سے ملاقات میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر خود کہہ چکے ہیں کہ وہ نیوٹرل رہیں گے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں تین ماہ میں الیکشن کرانا نیوٹرل کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ اگر انتخابات 90 دن سے آگے گئے تو یہ آئین پاکستان کی دھجیاں اڑائیں گے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آئندہ 90 دنوں میں انتخابات نہ ہوئے تو سمجھ لیں کوئی نیوٹرل نہیں۔ کرپشن اور مافیا کو ختم کیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرکے کئی لوگوں کو بے نقاب کر دیا۔
دوسری جانب، چودھری پرویز الٰہی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ جب عمران خان مجھے ساتھ بٹھا کر جنرل باجوہ کے خلاف بات کر رہے تھے تو مجھے بہت برا لگا۔ ان کے خلاف اب اگر بات کی گئی تو سب سے پہلے میں بولوں گا، میری ساری پارٹی بولے گی۔ جنرل باجوہ کے عمران خان پر بہت احسانات ہیں، احسان فراموشی نہیں کرنی چاہیے۔ جنرل باجوہ ہمارے بھی محسن ہیں، محسنوں کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ ایک انٹرویو میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان اور پی ٹی آئی کے مخالف نہیں بلکہ ساتھی ہیں لیکن اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جنرل قمر باجوہ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچایا، بیرونِ ملک سے فنڈز لانے خود گئے، سعودی عرب، قطر اور آئی ایم ایف سے پیسے سابق آرمی چیف لے کر آئے، انھوں نے ہی آئی ایم ایف سے بیلجیئم میں بیٹھ کر بات کی۔
عمران خان اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سے انتشار پھیلانے کے جس راستے پر چل رہے ہیں وہ ایک سیاسی قائد کا انتخاب ہرگز نہیں ہوسکتا۔ انھیں چاہیے کہ وہ مسلسل دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے یہ دیکھیں کہ ان سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں جن کی وجہ سے انھیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس وقت ملک جس حالت میں ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام سیاسی قیادت یک جہت ہو کر ملک کو استحکام کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کریں۔ سیاسی رسہ کشی تو بعد میں بھی ہوسکتی ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ چند ماہ مزید انتظار کرلیں اور اس دوران ایک مضبوط قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر اپنا مؤثر کردار ادا کر کے قوم کی نظروں میں اپنا امیج بہتر بنائیں۔