یہ ایک ایسے فرشتہ صفت انسان کا تذکرہ اور نوحہ ہے جو ایجوکیشن ،لٹریچر،جرنلزم اور کلچر کے آسمانوں پر تابندہ نورانی کہکشائوں کا حصہ بن گئے۔آج 20دسمبر ہے۔ آج سے تقریباًچھ برس قبل ایک یخ بستہ صبح کوگارڈن ٹائون کے ایک پارک میں ان کی نمازجنازہ ادا کی گئی ۔ جنازہ انتہائی پرہجوم تھا۔ انکے شاگرد دھاڑیں مارمارکر رورہے تھے کہ ان کا ایک انتہائی شفیق استاد دنیائے فانی سے رخصت ہوگیا۔ پہلے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ پروفیسر مسرور کیفی سے میرے گھریلو تعلقات تھے۔ میری بیگم صاحبہ حج بیت اللہ کیلئے گئیں تو اسی گروپ میں پروفیسر صاحب اور انکی بیٹی حلیمہ بھی شامل تھیں۔ حلیمہ بیٹی نے قدم قدم پر میری بیگم صاحبہ کی معاونت کی۔کیفی صاحب نے تقریباً52برس تعلیم و تعلم کے پیشے میں بسرکئے۔ کیڈٹ کالج کوہاٹ سے اس سفر کاآغاز کیا، لارنس کالج مری سے ہوتے ہوئے لاہور کے ایچی سن اسکول تک پہنچے۔ یہاں سے لاہورکینٹ کے ایک ڈیفنس گرائمر اسکول میں متعین ہوگئے۔ ان 52برسوں میں انہوں نے کئی خاندانوں کی تین نسلوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔کیڈٹ کالج ان کا پہلا عشق تھا، جہاں کے طلبہ نے آخردم تک ان سے ناطہ نہیں توڑا۔وہ گروپ کی شکل میں ہرسال ان سے ملنے آتے۔یا وہ انہیں کیڈٹ کالج کوہاٹ کی تقریبات میں مدعو کرتے رہتے تھے۔ان سے پڑھنے والوں میں اے لیول کے طلبہ و طالبات شامل ہوتے ہیں۔ پروفیسر کیفی صاحب انہیںاس قدر محنت وتوجہ سے پڑھاتے کہ ہرطالب علم اے گریڈ حاصل کرتا۔ صدر فاروق لغاری اور وزیراعظم نواز شریف کے بچے بھی انکے شاگردوں میں شامل ہیں۔ دونوں گھرانوں نے کیفی صاحب کو پیشکش کی کہ وہ انکی پارٹی میں اعلیٰ عہدے پر کام کریں ۔مگر کیفی صاحب نے تعلیم کو اوڑھنا بچھونا بنارکھا تھا۔ وہ جس روز عارضہ قلب میں مبتلاہوکر ہسپتال میںداخل ہوئے تو اس روز بھی ایک گروپ انکے علمی فیض سے مستفید ہورہا تھا۔ یہ تو تھا کیفی صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو، مگر انہوں نے زندگی کے کئی شعبوں میں سرگرم عمل ہوکر اپنا نام پیدا کیا۔ میرے ساتھ انکا بھائیوں جیسا رشتہ اور تعلق تھا۔پروفیسر کیفی نے روزنامہ ’’مغربی پاکستان ‘‘سے صحافت کے شعبے میں اپنی قلمی خدمات کا آغاز کیا۔میں نے انہیں نوائے وقت میگزین کیلئے لکھنے کی دعوت دی، توانہوں نے کمال ہی کردکھایا اور فلمی دنیا کی باکمال شخصیات کے قسط وار انٹرویوز کا ایک ڈھیرلگادیا۔یہاں سے انکی صحافتی صلاحیتوں کو ایک نئی زندگی ملی۔ ایک اخبار نے بچوں کے صفحے پر تصویری کہانی کا سلسلہ شروع کیا تو اس کے رائٹراور پروڈیوسرپروفیسر مسرور کیفی ہی تھے۔ اس کہانی کا تانا باناانکے ایچی سن والے گھر میں بنایا جاتا۔ اس گھر سے یاد آیا کہ سینئرصحافیوں واصف ناگی ،منذرالہٰی اورمیں نے پریس کونسل آف انٹرنیشنل افیئرزیعنی پی سی آئی اے کا آئیڈیا اسی گھر میں پروان چڑھایا۔ پی سی آئی اے سے پہلے ’’لاہورمیڈیا کلب ‘‘کے نام سے ہماری سرگرمیاں جاری تھیں، تاہم 1989ء میں دیوار برلن ٹوٹی او رمشرقی یورپ میں تبدیلی کی تیز ہوائیں چلیں، تو ہم لوگوں کو خیال آیا کہ ہمیں کنویں کا مینڈک بننے سے بچنا ہوگا اور بیرونی دنیا میں رونماہونیوالے واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہئے ۔کیونکہ پاکستان میں جتنے بھی حوادث وقومی سانحات رونما ہوئے ، انکے پس پردہ بیرونی ہاتھوں کا عمل دخل رہا ہے۔پروفیسر کیفی نے پی سی آئی اے کے بڑے بڑے سیمینار زکے انعقاد کیلئے قابل قدر تعاون کیا۔ پی سی آئی اے کی چالیس سالہ تاریخ میں پروفیسر کیفی صاحب اسکے ہر اجلاس میں شرکت کرتے رہے۔ انکی زندگی کی آخری تقریب انہی کے مشورے او ر رہنمائی میں منعقد کی گئی ۔ نیول چیف سندھیلہ صاحب انکے عزیزشاگردوں میں شامل تھے اور اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوکر تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سے اگلی تقریب بھی پروفیسر مسرورکیفی صاحب نے ہی طے کی اور اسکے مہمانوں کو مدعو کیا،لیکن وہ خود اس اجلاس میں شریک نہ ہوسکے ،کیونکہ وہ لاہور کے ایک مقامی ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ پی سی آئی اے کا ذکر چل نکلا ہے ،اسکے پانچ ارکان پر مشتمل ایک گروپ نے برطانیہ کا دورہ کیا ،جس کے تمام اخراجات پی سی آئی اے کے ارکان نے ہی برداشت کئے۔ اس دورے میں گروپ لیڈر کے طور پر پروفیسر مسرور کیفی نے اپنا تاریخی کردار ادا کیا۔ یہ گروپ لندن کی پارلیمنٹ میں گیا ،اس نے بی بی سی کے دفتر کا دورہ کیا، گلاسگو میں شوکت بٹ اور ملک غلام ربانی کے تعاون سے سٹی کونسل کے سربراہ نے پی سی آئی اے کے اس گروپ کی مہمان نوازی کی اور ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس دورے کی رودادِ سفر پروفیسر مسرور کیفی نے نوائے وقت میگزین میں کئی قسطوں میںحوالہ قرطاس کی۔یہ سفری روداد ادبی چاشنی سے لبریز تھی۔ پروفیسر مسرور کیفی کا سارا گھرانہ ہم لوگوں کی تواضع کیلئے چشم ِ براہ رہتا۔ انکی بیگم بے انتہاخوش طبع تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مہمانوں کے سامنے شامی کباب ، فروٹ چاٹ،کیک پیس او ردہی بھلے پلیٹوں میں سجادیئے جاتے۔ پروفیسر صاحب کی تین بیٹیاں ڈاکٹر فاطمہ، ڈاکٹر آمنہ اور حلیمہ نے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرکے علمی مدارج طے کئے۔بلال کیفی انکے اکلوتے صاحبزادے تھے۔انکی تعلیم پر والدین نے بہت توجہ صرف کی۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ سے انہوں نے انجیئنرنگ کی تعلیم حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کیلئے انہیں امریکہ بھیجا گیا، جہاں کولمبیا یونیورسٹی سے انہوں نے ماسٹرز کی تین ڈگریاں اعلیٰ اعزاز کے ساتھ حاصل کیں ۔ کیفی صاحب کی بڑی بیٹی ڈاکٹر فاطمہ بھی امریکہ سے فارغ التحصیل ہے اوروہیں کیلی فورنیا کے ایک ہسپتال میں آئی سی یو کی انچارج ہیں۔ دوسری بیٹی ڈاکٹر آمنہ آئی سرجن ہیں اور اسلام آباد میں ہی مقیم ہیں ۔ چھوٹی بیٹی حلیمہ تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بیٹا بلال کیفی اپنے والد کی طرح ذہین و فطین اور خوش طبع نوجوان ہے۔ انہوں نے پانچ چھ برس پاکستان میں ملازمت کی ، پندرہ برس قبل وہ امریکہ چلے گئے ، جہاں سے انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم میں حصول کے بعدامریکی حکومت میں سرکاری ملازمت کررہے ہیں۔ پروفیسر کیفی صاحب کی رحلت کے بعد وہ اپنی والدہ کو نیویارک لے گئے ہیں ،جہاں وہ سرکاری فرائض کیساتھ ساتھ اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف ہیں اور بھرپور نیکیاں کمارہے ہیں۔نیکی کی تربیت انہوں نے اپنے والد سے ورثے میں حاصل کی ،جنہوں نے مذہب سے بہت قریبی رشتہ جوڑا ہوا تھا۔ پانچ وقت کے نمازی اور تہجدگذار شخص تھے۔تفسیرِقرآن میں گہرے مطالعے اورغوروخوض کے بعد سود کی ممانعت کے قرآنی فیصلے کاعلم ہوتے ہی انہوں نے اپنے ایسے تمام بینک اکائونٹس بندکروادیئے جن پر انہیں سودملتا تھا۔ ان کی ساری جمع پونجی بینکوں کے کرنٹ اکائونٹس میں محفوظ تھیں۔ پروفیسر مسرور کیفی زندہ دلی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ شاعری سے بھی شغف فرماتے اور اساتذہ کے بھی سینکڑوں اشعار انہیں زبانی ازبر یاد تھے، جنہیں وہ موقع ومحل کی مناسبت سے اپنی تحریروگفتگو کا حصہ بناتے۔وہ انتہائی بذلہ سنج انسان تھے ،ان کی صحبت میں چندلمحے گذارنے والا شخص اپنے تفکرات ،پریشانیوں اور ٹینشن سے وقتی طورپر نجات پالیتا ۔اس باغ و بہار شخصیت کو میں ہرلحضہ یاد رکھتا ہوں اور یاد رکھوں گاکہ میں نے ان سے محنت کرنے کا سبق سیکھاہے۔