لندن بھی دیگر شہروں کی طرح بہت مہنگا ہوچکا ہے۔ دو سال کے قلیل عرصے میں ہرچیز کی قیمتیں دگنی ہو چکی ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے ہوٹل کا کرایہ بھی تیس ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔ ٹریفک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پارکنگ کیلئے جگہ نہیں ملتی۔ کروڑ پتی بھی ٹیوب (ریل) میں سفر کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ Bays water میں ٹھہرتا ہوں۔ ہائیڈ پارک کے کنارے کسی نہ کسی ہوٹل میں ،میں نے اس پارک میں صبح کی سیر کبھی ’’مِس‘‘ نہیں کی۔ بوٹ ریسٹورنٹ تک جاتا ہوں۔ یہ وہی ریستوران ہے جہاں میاں نواز شریف بھلے وقتوں میں ناشتہ کرتے تھے۔ وہ بھی سیر کے رسیا ہیں جب سے خان کے ٹائیگرز نے ہلڑ بازی شروع کی ہے انہوں نے جھیل کے کنارے سیر بند کر دی ہے۔ جھیل کے کنارے پڑے ہوئے بینچوں پر بیٹھے سینکڑوں عرب مرد، عورتیں اور بچے نظر آئینگے۔ میرے ایک دوست کہنے لگے، وہ دن دور نہیں جب یہ سارا لندن خرید لیں گے۔ ایجویر روڈ پر بنی ہوئی تمام عمارتیں ان کی ملکیت ہیں۔ میرا اگلا پڑائو لاس اینجلس تھا۔ اس شہر کی وسعت اور امارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست کیلے فورنیا کا سا شہر پاکستان جتنا ہے۔ اسکی معیشت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت شمار ہوتی ہے۔LA میں میرا بیٹا مرتضیٰ ملازمت کرتا ہے۔ دو برادران نسبتی ہمایوں انور بابر بزنس کرتے ہیں۔چند دن لاس ویگاس میں گزرے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جسکے ساتھ لوگوں نے Love hate relationship قائم کر رکھی ہے۔ یہاں آ کر وہ جو زاہدان خشک ہیں لاحول کا ورد شروع کر دیتے ہیں اور وہ جو اتنے زیادہ خشک نہیں ہیں انہیں اپنے وجود میں گدگدیاں سی ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔ لوگوں کا جم غفیر، چہروں پر چمک، منہ سے ہنسی کے فوارے چھوٹتے ہوئے، دنیا کے سب سے بڑے کیسینو ، یہاں پر چاندی کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ ’’مایننگ ایریا‘‘ سے جواء ختم کرنا ایسا ہی ہے جیسے دریائے جپسی کا شیونگ مگ کے ذریعے پانی خشک کرنا۔ ایک مہینہ LA میں گزارنے کے بعد سڈنی آ گیا۔ یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سڈنی نے اپنی ہئیت کو چالیس سال میں بھی کوئی خاص نہ بدلا تھا۔ وہی اوپیرا ہائوس، وہی ہاربر برج ، وہی ٹاور، نیشنل پارک ، ریس کورسز (Beaches) البتہ کئی نئی عمارات بن گئی ہیں۔ بانڈے جنکشن میں جس ہوٹل ٹیلفورڈ لاج میں ہم رہتے تھے نظر نہ آیا۔ اسے گرا کر اس کے اُوپر سڑکیں بنا دی گئی ہیں۔بانڈے جنکشن کی عمارات بھی قدرے اونچی اور بڑی ہو گئی ہیں۔ فیلی بیچ گئے تو وہاں اس قدر تبدیلی آئی ہے کہ مین بلیوارڈ پر بے شمار دکانیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ سیاحوں کا اژدہام تھا۔ جس قدر آدمی تھے ان سے کہیں زیادہ کتے تھے۔ ہر رنگ اور نسل کے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سارے یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں آدمیوں کی نسبت کتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایک کتے کی خوراک پر اتنا ہی خرچ اٹھتا ہے جتنا مالک پر خرچ ہوتا ہے۔ اس رقم سے ایشیا اور افریقہ کے کروڑوں لوگوں کو خوراک مہیا کی جا سکتی ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں۔ اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو اسے حیوان سمجھ کر معاف کر دیا جاتا ہے۔ بالفرض کوئی آدمی کتے کو مارے تو تمام ذرائع ابلاغ حرکت میں آ جاتے ہیں۔میرا قیام سڈنی کے مضافات Gosford میں تھا۔ گاسفورڈ بڑی خوبصورت کائونٹی ہے۔ مکان جھیل کے کنارے پر تھا۔ میں سیر کا رسیا ہوں۔ صبح جب واک کیلئے نکلتا تو سارے وجود پر ایک سحر سا طاری ہو جاتا۔ جھیل کا ہلکورے لیتا ہوا پانی، کبوتروں کی شکل سے ملتے جلتے پرندے خنک ہوا، پسِ منظر میں پہاڑیوں پر سبزے کا سمندر گاسفورڈ سے ایک سڑک نیوکاسل اور دوسری ناورا جاتی ہے قریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیو ہے، یہاں پر فاصلے میلوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بتائے جاتے ہیں۔ پرانی یادیں تازہ کرنے کیلئے دونوں شہروں میں گئے۔ نیوکاسل میں کوئلے کے بڑے ذخائر ہیں۔ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے کوئلے کی قیمت تین گناہ بڑھ گئی ہے۔ بندرگاہ پر کوئلہ لادنے والے جہاز اس طرح کھڑے تھے جس طرے بادامی باغ میں بسیں قطار اندر قطار کھڑی ہوتی ہیں۔ آسٹریلیا کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہو گئی ہے۔ نیوکاسل میں ایک پاکستانی بزنس مین سرفراز صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کا بہت بڑا گھر ہے جس میں عبادت گاہ بنا رکھی ہے۔ اس میں مذہبی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے ۔ تقریب کے دن کافی اہل وطن سے ملاقات ہوئی ہر کوئی ملکی صورتحال سے متوشش اور دل گرفتہ تھا، ایک سوال ہر شخص کے ورد زبان تھا ملک کا کیا بنے گا؟‘‘
آسٹریلیا میں 90 ہزار پاکستانی بستے ہیں۔ اکثریت سڈنی میں ہے۔ یہ لوگ نسبتاً متمول ہیں۔ ڈاکٹر ، انجینئرز، بزنس مین۔ میرا داماد علی اصغر بھی انجینئر ہے۔ کافی پاکستانی خاندانوں نے ہمیں کھانے پر بلایا۔ آخری کھانا وقار یونس صاحب کے گھر تھا۔ وقار صاحب سے خاندانی مراسم ہیں۔ انہوں نے کاسل ہلز کے ایریا میں نہایت خوبصورت مکان بنا رکھا ہے۔ ان کی بیگم فریال وقار ڈاکٹر ہیں۔ یہ میری بیٹی کی کلاس فیلو ہیں۔
میری بیٹی اس وقت مانچسٹر میں کنسلٹنٹ ہے۔
وقار تو کمنٹری کے سلسلے میں دبئی تھے۔ لیکن ان کی فیملی اور سُسر شاہین صاحب کھانے پر موجود تھے۔ وقار کا بیٹا پاکستان میں میڈیکل کالج میں ہے۔ دو بیٹیاں سڈنی میں زیر تعلیم ہیں۔ شاہین صاحب 1980ء میں یہاں آئے اور اب مکمل آسٹریلین بن چکے ہیں۔
غالباً سمن کلیان پُور کا گانا ہے۔ جیون میں ا یک بار آنا سنگاپور! آج کا سڈنی دیکھیں تو لفظ ایک بار، سوبار میں بدل جاتا ہے۔