گزشتہ برس معروف محقق ڈاکٹر حسن علی بیگ کی کتاب ”صدا بہ صحرا “ شائع ہوئی۔ کتاب بنیادی طور پر مجموعہ ہے ان مضامین کا جو 45 برس میں مختلف مواقع پر لکھے گئے اور قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوئے۔کتاب میں شامل ایک حصہ ان یادداشتوں پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر حسن علی بیگ کے والدِ گرامی مرزا محمود علی بیگ نے وقتاََ فوقتاََ اپنے اجداد ، خاندان، رشتہ داروں، محلے داروں کے حوالے سے ڈاکٹر بیگ صاحب کو بتائیں۔ان مضامین کو پڑھ کر بیسویں صدی کی معاشرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست سے اُکتاہٹ کے بعد ایسی ہی کتابیں ذہن کو تازگی اور سکون فراہم کرتی ہیں۔تاریخی کُتب کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو جو کتابیں لکھی گئیں ہیں وہ بادشاہوں کے گرد گھومتی ہیں ہا پھر میدانِ جنگ کے واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرت سے متعلق کوئی خاطر خواہ معلومات نہیںملتی ہیں۔ لاہور میں ہمارے ایک بزرگ دوست مولوی عبدالعزیز مرحوم ہوا کرتے تھے۔ مولوی صاحب کو ڈاکٹر مبارک علی سے علمی عقیدت انتہا کی حد تک تھی۔مولوی صاحب بتایا کرتے تھے کہ کسی بھی دور کی معاشرت جاننے کے لیے اس دور کے ان افراد کی آپ بیتیاں پڑھیں جن کا واسطہ اقتدار کے ایوانوں کی بجائے عام لوگوں سے ہوتا تھا۔اسی حوالے سے مولوی عبدالعزیز صاحب نے کتاب ” لطف اللہ کی آپ بیتی“ کے مطالعے کی ترغیب دی۔ لطف اللہ فارسی کے استاد تھے اور انگریزوں کو فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ کتاب کا دوسرا حصہ ڈاکٹر حسن بیگ کے اسفار، شخصی خاکوں اور مختلف مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ کتاب میں ایک مضمون وسطی ایشیا کے شاعر مخدوم قلی فراغی پر ہے، جن کا کلام وسطی ایشیا ئی ممالک میں انتہائی مقبول ہے۔فراغی ترکمان قوم سے تعلق رکھتے تھے اور ترکمانستان کے قومی شاعر ہیں۔ مختصر صفحا ت پر ڈاکٹرصاحب نے علی قلی فراغی کا تعارف اور ان حالات و افکار کے چیدہ چیدہ نکات نہایت مفصل طور پر بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ اقبال ؒ کا یہ شعر ذہن میں گونجتا رہا جو انہوں نے فاطمہ بنت عبداللہ کے متعلق کہا تھا کہ:
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکِستر میں تھی!
روس کی ہوس اقتدار نے جہاں وسطی ایشیاءکے عوام کے سماجی رابطوں کو منقطع کیا وہاں اسلام کی انقلابی تعلیمات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سوشلسٹ معیشت انسان دوستی، امن، مساوات، عوام پروری اور محبت کے اثرات پیدا کر سکتی تھی لیکن فلسفہ مادیت کی آمیزش نے قطعاََ مختلف نتائج پیدا کیے۔ تقریباََ ایک صدی تک سوویت یونین کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے خدا کی ہستی، یوم آخرت، رسولوں اور مقدس کتابوں کی شب ور وز مخالفت کی اور جیسا کہ ڈاکٹر حسن بیگ صاحب نے بھی اپنے مضمون میں ذکر کیا کہ 1971 میں عربی رسم الخط کے تمام مسودات اور کتابوں کو مذہبی سمجھ کر تلف کردیا گیا۔ اسی لیے سووویت یونین سورہ کہف کی آیت نمبر106 ”یہ ان کی سزا ہے، ( یعنی ) جہنم اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات اور ہمارے پیغمبروں کی ہنسی اڑائی“ کے مطابق برباد اور رسوا ہوا ۔ علامہ اقبال نے1931 میں سر فرانس ینگ ہزینڈ کو ایک خط لکھا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ :
”ذاتی طور پر میں نہیں سمجھتا کہ روسی فطرتاََ لامذہب ہیں۔ اس کے برعکس میرا خیا ل ہے کہ روسی مر د اور عورتیں بڑے مذہبی ر جحا نات رکھتے ہیں اور روسی ذہن کا موجودہ منفی رجحان ہمیشہ باقی نہیں رہے گا کیونکہ کوئی عمرانی نظام دہریت کی اساس پر باقی نہیں رہ سکتا ۔ جوں ہی اس ملک میں حالات ٹھیک ہوجائیں گے اور اس کے باشندوں کو اطمینان سے غور کرنے کا وقت ملے گا۔ وہ مجبوراََ اپنے نظام کی کوئی مثبت بنیاد تلاش کریںگے۔ ڈاکٹر حسن بیگ صاحب نے قلی فراغی کے جو چند اشعار نقل کیے ہیں اس سے فراغی کی فکر ی سمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ، ان کی شاعری سے ان کی قوم پرستی کی شدت واضح ہوتی ہے۔ جن اشعار میں وہ حکمرانوں اور مفتیوں پر تنقید کرتے ہیں اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ روایت پرستی کی بجائے ترقی پسند فکر اور مثبت تبدیلی کے علمبردار تھے۔ مذہبی پیشوائیت اور نظام سرمایہ داری کا گٹھ جوڑ ازل سے چلا آرہا ہے، مذہبی پیشوائیت بجائے خویش نظام سرمایہ داری ہی کی ایک شاخ ہے کہ سرمایہ داری کی اصل بنیاد یہی ہے کہ بغیر محنت کے دولت کا حصول۔ مذہبی پیشوائیت بھی یہی کرتی آرہی ہے کہ بالا دست طبقات کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔قرآن پاک نے فرعون ، قارو ن اور ہامان کی شکل میں تین طبقات کی نشاندہی کی ہے فرعون سیاست و ملوکیت کا مجسمہ ، قارون نظام سرمایہ داری کا علمبردار اور ہامان پیشوائیت کا نشان ، ان ہی طبقات کے اثرات آج تک ہر دور میں دیکھے گئے
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
اس امر کے مشاہدے کے لیے وطنِ عزیز میں آج کی سیاست کو دیکھ لیں۔ قلی فراغی کے جو اشعا رڈاکٹر حسن بیگ صاحب نے درج کیے ہیں اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فراغی نے بھی اپنے دور کے اجارہ دارطبقے کے ظلم و ستم اور غریب عوام کی حالت زار کو موضوع بنایا ہے جو عوام میں ان کے کلام کی پذیرائی کا بنیادی سبب ہے۔مخدوم قلی فراغی کے دو تخلص کا استعمال بھی خوب ہے۔ البتہ دوسرے تخلص فراغی کے حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو میں اس کا مطلب فراق (جدائی ) ہوگا یا فراغت سے فراغی بنا ہے؟ یقیناڈاکٹر حسن بیگ صاحب کے پاس مخدوم قلی فراغی کے کلام کا نسخہ ہوگا ۔ ان سے درخواست کروں گا کہ وہ ترکمانستان اور پاکستان کے متعلقہ اداروں کو فراغی کے اردو ترجمے کی اشاعت کے اہتمام کامشورہ دیں، اس ضمن میںترکمانستان حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ رہا پاکستان کا معاملہ تو یہاں تخلیق و تحقیق دن بہ دن روبہ زوال ہیں۔