سڑک کنارے عینکیں بیچی جا رہی تھیں ۔ملک صاحب آئے عینک پسند کی ۔ ریٹ پوچھا توجواب ملا آپ کےلئے صرف 550روپے ،ویسے تو ہم 700روپے میں بیچتے ہیں ۔گاہک بولا تھوک مارکیٹ میں یہ 40 سے70روپے میں مل جاتی ہے ،اتنا زیادہ منافع لیتے ہو ،تمہیں خدا کا خوف نہیں ۔ آخر کار 80روپے میں عینک خریدلی گئی۔پاس کھڑاہوانوجوان یہ سب دیکھ رہا تھا ،وہ قریب آیا اور بولا آپ کیوں اتنا زیادہ منافع لیتے ہو ؟یہ منافع حرام ہے ۔ جواب ملا یہ کوئی گناہ نہیں ہم نے سارے خرچے بھی تو یہیں سے پورے کرنے ہیں ۔یہی حال معاشرے میں ہونے والی تجارت کا ہے ۔ آج منافع خوری کو عیب کی بجائے ہنر یا کاروباری فنکاری کا نام دیا جا رہا ہے ۔ میں چند دن پہلے راجہ بازار کی طرف جا نکلا ،جہاں لگی بے شمار ریڑھیوں کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل تھا ، انہیںہٹانے والا کوئی نہ تھا ۔ان کی وجہ سے خریداروں کا چلنا تک محال تھا ، ان کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ رزق حلال کماتے ہیں۔راجہ بازار میں امردو 60 سے80روپے کلو فروخت ہو رہا تھا ، ریڑھی والوں نے ریٹ کارڈ نمایاں طور پر لگا رکھاتھا ۔گاہک کوریٹ پوچھنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی تھی ۔مہنگائی کے بے قابوجن کی صورتحال جانچنے کےلئے مری روڈ پر آ گیا ۔بے نظیر بھٹو ہسپتال کے سامنے لگی ریڑھیوں پر امردو کا ریٹ 150روپے کلوتھا ۔ ایک ریڑھی والے سے گلہ کیا تو بولا ۔”راجہ بازار میں گھٹیا قسم کا امردو بکتا ہے ،ہم اعلیٰ پھل فروخت کرتے ہیں ۔گویا ہسپتال کے سامنے مریضوں اور ان کے لواحقین کی چمڑی اتارنے میں یہ لوگ کوئی عار محسوس نہیں کر رہے تھے ۔ 23جولائی2001 کومیں راولپنڈی کی نالہ لئی میں طغیانی کے سبب شہر کے مرکزی کاروباری مراکز راجہ بازار،گنج منڈی، موتی بازار، بوہڑ بازار، کلاں بازار، باڑہ بازار، سٹی صدرروڈ، مغل سرائے، کالج روڈ اورملحقہ تمام بازاروں کی دکانیں پانی میںڈوب گئی تھیںجس کے نتیجے میں تاجروں اور شہریوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا 18قیمتی جانیں بھی حادثہ کی نذر ہوئی تھیں ۔سیلاب سے کچھ عرصہ قبل ماہ سرما کی بات ہے ،میں موتی بازار میں ایک دکاندار کے پاس تھا کہ سوئیٹر کا ایک گاہک آیا ۔دکاندار نے اس کی پسندکے سوئیٹر کی قیمت 550روپے بتائی ۔یہ سوئیٹرا مپورٹڈ تھا ۔مجھے اچھے سے یاد ہے کہ ایک کاروباری شخص سوئیٹر کی سیل کےلئے مذکورہ دکاندار کے پاس آئے اور دکاندار نے اُن سے 75روپے میں یہ سوئیٹر خریدا تھا ۔اسی سوئیٹر کے وہ گاہک سے 550روپے مانگ رہا تھا ۔بہت زیادہ بارگینگ کے بعد دکاندار 500روپے میں سوئیٹر دینے پر آمادہ ہو گیا ۔ساتھ ہی اُس نے گاہک سے جو تاریخی جملہ بولا ۔وہ میں آج تک بھلا نہیں پایا ۔دکاندار نے گاہک سے کہا ”بھائی صاحب ! یہ سوئیٹر تواس قیمت میں مجھے گھر پر بھی نہیں پڑتا ،مجھے میری ماں کی قسم کہ میں غلط بیانی کروں ۔ میں نے دکاندار سے کہا کہ آپ اس طرح جھوٹ بول کر مال نہ بیچا کریں ۔ماں کے حوالے سے جو بات آپ نے کہی ہے یہ تو بہت ہی نامناسب ہے ۔ دکاندار بجائے شرمندہ ہونے کے ۔بولا آپ دکانداری کے فن سے واقف نہیں ۔ہم اب آپ کے فارمولے پر کام کریں تو ہمیں دکان ہی بند کرنا پڑ جائے ۔یہ ایک دکاندار کی کہا نی نہیں بلکہ یہ معاشرتی المیہ ہے کہ ہم منافع خوری کرتے ہیں ۔اپنے رزق میں بے برکتی کا خود سامان کرتے ہیں اور الزام حکومت یا انتظامیہ کو دیتے ہیں ۔ہم اللہ کی حکمت کو بھی سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔دیکھا جائے تو ہر دوسرا شخص مہنگائی کا ذمہ دار حکومت اور انتظامیہ کو ہی ٹھہراتا ہے ۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ دکاندار ہو یا چھابہ فروش ،انہیں حکومت اور انتظامیہ کا کوئی خوف نہیں ۔کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں کہ یہ لوگ کس طرح عوام کو لوٹ رہے ہیں ۔سرکاری سطح پرمارکیٹ کمیٹی اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں ۔پرائس کمیٹی میں سیاسی ،سماجی و تاجر نمائندے بھی شامل کئے گئے ہیں ،لیکن ان کمیٹیوں میں شامل افراد کو اشیائے ضروریہ کی خرید و فروخت کے حوالے سے چیکنگ یا کوئی اور ایکشن لینے کا عملاً کوئی اختیار حاصل نہیں ۔اکثر ممبران کو شکایت ہی رہتی ہے کہ ہم اگر بازار میں چیکنگ کریں تو ہماری شکایت پرناجائز منافع خوروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ۔بعض ممبران نے اس بناءپر کمیٹی سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے ۔ڈپٹی کمشنر کی زیر صدارت ان کمیٹیوں کے اجلاس بھی شاذ ہی ہوتے ہیں ۔اور اگر ہوں بھی تو اجلاس ”گفتند، نشستند، برخواستند “سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ،اجلاس میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا ۔سیاسی مداخلت کی وجہ سے پرائس کمیٹیاں بھی عضو ِ معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور انتظامیہ اشیائے ضروریہ کی مہنگے داموں فروخت کو روکنے کےلئے سخت اقدامات کرے۔عوام و خواص کو بھی چاہئے کہ وہ مہنگی اشیاءخریدنے سے اجتناب کریں ۔جب عوام خود ہی مہنگی چیز نہیں خریدیں گے تو ناجائز منافع خوری کے رجحان میں کمی آئے گی اور قیمتیں بھی اعتدال پر آ جائیں گے ۔تجارت میں اللہ نے نو حصے برکت رکھی ہے لیکن ہم نے تجارت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہوئی ،کبھی کبھی حرام کمائی کی وجہ ہم اور ہمارے زیر کفالت افراد کسی نہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کمائی گئی حرام کی دولت اس بیماری کے علاج پر لگ جاتی ہے ۔اس لئے ہمیں جائز منافع کے ساتھ تجارت پر دھیان دینا چاہئے ۔رزق حلال میں برکت ہے ،اور تجارت کے ذریعے ہم جہاںکم منافع لے کر عوام کی خدمت کر سکتے ہیں ،وہاں ہم دنیا و آخرت میں سرخروئی کا سامان بھی کر سکتے ہیں ۔ تجارت اللہ اور اُس کے رسول کی تعلیمات کے تابع ہو جائے تو ہم دنیا کی بہت سے پریشانیوں سے بھی بچ سکتے ہیں ۔
رزقِ حلال کی برکتیں
Dec 20, 2022