یہ وسط دسمبر کی ایک نسبتاً خنک صبح تھی پشاور کا درجہ حرارت اس دن معمول سے قدرے کم تھا ہر طرف چھائی دھند نے ماحول کو نہ صرف پراسرار بنا رکھا تھا بلکہ حد نظر بھی متاثر کر رکھی تھی لہذا زیادہ دور تک دیکھنا ممکن نہ تھا لیکن پشاور کی رونقیں بحال تھیں صبح کے وقت وہی افرا تفری ٹرانسپورٹ کا شور اور رش سب روزمرہ معمول کے مطابق ہی تھا لوگ اپنے دفاتر اور کام کی جگہوں پہ بروقت پہنچنے کیلیے بھاگے جاتے تھے لیکن اپنے نونہالوں کو سکول پہنچانا نہیں بھولے تھے جن بچوں کے ” بڑے “ کسی وجہ سے سکول پہنچانے سے قاصر تھے ان کی مائیں اپنی آنکھوں میں ان بچوں کے بہتر مستقبل کے سہانے خواب سجائے انھیں سکول پہچانے کی زمہ داری سنبھالے ہوئے تھیں۔ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح آرمی پبلک سکول کے طالب علم بھی اپنے والد والدہ یا سرپرست کی نگرانی میں سکول پہنچے لیکن ان والدین کو شاید معلوم نہیں تھا کہ کچھ دیر بعد انسانی تاریخ کا بدترین درندگی کا کھیل کھیلا جانے والا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچے اسمبلی کے بعد حسب معمول اپنی تدریسی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے کچھ بچے ابھی سکول کے آڈیٹوریم میں تھے باقی اپنی کلاسوں میں جا چکے تھے اس دوران کچھ بے ننگ و ناموس غیرت رحمدلی سے عاری سنگدل انسان نما درندے سکول کے باہر غیر محسوس انداز میں گشت کر رہے تھے شاید مقررہ وقت کے منتظر تھے جانے انھیں موجودہ دور کے شیخ الجبل نے کون سے سہانے خواب دکھائے تھے جنت کی حوروں اور مختلف مدارج کے کیسے وعدے کیے گئے ہوں گے وہ سفاک قاتل معصوم بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کو تیار ہو گئے مقررہ وقت پر وہ سکول کی عقبی سمت سے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور سیدھے آڈیٹوریم پہنچے وہاں ان درندوں نے معصوم بچوں سے عجیب سا سوال پوچھا کہ کس کس کے والد آرمی میں ہیں سینکڑوں بچوں نے ہاتھ بلند کیے قبل اس کے کہ کوئی بھی اس خطرناک صورتحال کا ادراک کر پاتا گولیوں کی بوچھاڑ سے سکول کے در و دیوار لرز گئے آڈیٹوریم کی دیواریں معصوم بچوں کے خون سے رنگین ہو گئیں ہر طرف کہرام مچ گیا بچوں کی چیخ و پکار نے قیامت صغریٰ کا منظر بپائ کر دیا اس دوران پشاور کے ایک معروف صحافی کو افغانستان میں پناہ گزین ایک ایک دہشتگرد کمانڈر کی کال بھی آئی تھی جس میں اس واقعے کی کچھ تفصیل بتائی گئی لیکن اصل صورتحال شام کو واضح ہوئی تھی۔ تب کے وزیر اعلیٰ پختونخوا نے جب واقعہ کی تصدیق کی اور شہدا کی تعداد بتائی تو پوری دنیا میں کہرام مچ گیا پاکستان میں کوئی ہر آنکھ اشکبار تھی کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا کہ بزدل دشمن اس حد گر سکتا ہے کہ معصوم جانوں پہ ترس کھائے نہ ان پہ فائر کرتے ہوئے ہاتھ لرزیں۔وہ لوگ جنھوں نے ان شہید معصوم ننھے بچوں کو زندگی میں دیکھا تھا نہ ہی ان سے کوئی تعلق تھا بھی اپنے بچوں کو گلے لگا کر دھاڑیں مار کر روئے، ماں تو ماں ہوتی ہے چاہے پشاور کی ہو کوئٹہ،کراچی لاہور یا مظفرآباد کی ہو اس کا نرم دل ایسا سانحہ کیسے سہہ سکتا تھا میڈیا پہ پورے ملک کی خواتین بچے بزرگ روتے دکھائی دیے بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے پورے ملک میں صف ماتم پچھ گیا اسی طرح پورے وثوق سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اکثر گھروں میں اس دن چولہے تک نہ جلے ہوں گے سوگ کی یہ کیفیت آئندہ کئی روز تک جاری رہنے والی تھی یوں سمجھ لیجیے غم کا ایک پہاڑ تھا جو یکایک قوم پہ آ گرا۔جہاں سکول کے اندر اساتذہ اور سیکورٹی اہلکاروں کی بہادری کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں وہاں باہر بھی چند فوری و ہنگامی اقدامات اٹھانا پڑے خوف و دہشت کی اس فضائ میں تعلیمی اداروں میں چھٹیاں کر دی گئی سیاسی محاذ آرائی ختم کر کے تمام سیاسی قوتیں شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار سر جوڑ کر بیٹھ گئیں انتہائی مشکل معاشی سیاسی صورتحال اور خطرناک جغرافیائی حیثیت کے باوجود متفقہ طور پر اس عظیم سانحہ کے زمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ غیور قوم نے ان ظالموں کو واصل جہنم کر کے ہی دم لیا یہ درست ہے کہ ان بےرحم درندوں کو مار دینے سے شہید بچے اساتذہ یا سیکورٹی اہلکار واپس تو نہیں آ سکتے نہ ہی انسانی جان کا کوئی مداوا ہو سکتا ہے لیکن اپنے اور اپنی آئندہ نسل کے مستقبل کے تحفظ کی خاطر فوری اقدامات ناگزیر تھے۔
تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کے واقعات پاکستان کے علاو¿ہ امریکہ روس کینیا سری لنکا سمیت کئی ممالک میں پیش آ چکے ہیں جن میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں غالباً سب سے زیادہ حملے امریکہ میں ہوئے ہیں جہاں تقریباً تمام حملے نفسیاتی مریضوں کی جانب سے کئے گئے جو عام طور پر وقوعے کے آخر میں خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ دل شکن اور سفاک حقیقت ہے کہ درسگاہوں پر زیادہ تر دہشت گرد حملے مسلمان شدت پسند تنظیموں کی جانب سے کئے گئے اندازہ کریں کہ دنیا کو امن کا درس اور پیغام دینے والا دین کا دنیا کے سامنے کیا ماڈل پیش کیا جا رہا ہے میرے ناقص فہم کے مطابق ایسے واقعات کا سدباب صرف طاقت کے استعمال سے ممکن نہیں اصلاح معاشرہ کی خالص تحریک اور حقیقی دینی تربیت بہت لازمی ہے شاید اس کے بغیر ہم دنیا کو امن کی ضمانت دے سکتے نہ ہی اسلام کا حقیقی تصور دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔