”عالمی دہشت گرد اسرائیل“دو ماہ سے زائد عرصہ سے مسلسل فلسطین کی مقدس سرزمین پر آگ اور خون کی ہولی کھیل رہا ہے غزہ کی پٹی کے ہر رہائشی علاقے، پناہ گاہوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور دیگر شہری تنصیبات پر وحشیانہ طریقے سے طاقت ور بم گرانے کےساتھ ساتھ ”ممنوعہ کیمیکل بمبنگ“ بھی کی جارہی ہے جس سے ہنستی مسکراتی بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں اور 20ہزار کے لگ بھگ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہو چکی ہے اس کے علاوہ 10لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں لیکن امریکہ اور مغربی طاقتوں کے پالتو غنڈے اسرائیل کو لگام دینے میں اقوامِ متحدہ سمیت ہر ادارہ ناکام ہو چکا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات تویہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیمیں عرب لیگ، اوآئی سی اور خلیج تعاون کونسل کوئی ٹھوس اورمتحدہ لائحہ عمل تیار کرنے میں بھی ناکام ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل کی غنڈہ گردی شدید سے شدید تر ہو چکی ہے۔اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو عالمی میڈیا کے سامنے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ زہر اگل رہے ہیں کہ ہم حماس کا مکمل خاتمہ کرنے کا اپنا مشن جاری رکھیں گے اور یہ دکھ بھری حقیقت ہے کہ عارضی جنگ بندی کے ختم ہونے کے فوراً بعد اسرائیل کی زمینی بحری اور فضائی دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف خطر ناک اسلحے سے لدے جہاز مسلسل اسرائیل پہنچ رہے ہیں جبکہ مسلم ممالک زبانی جمع خرچ اور ڈھیلے ڈھالے احتجاج سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ غیر مسلم ممالک خاص کر یورپی ممالک میں اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری اور حملوں کے خلاف لاکھوں افراد روزانہ مظاہرے کر رہے ہیں جبکہ اسلامی ممالک میں ہونے والے مظاہرے اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہیں۔ یہ بھی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ عوام سڑکوں پر ہیں اور حکمران اپنے اپنے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کے جنگی جرائم پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی چیخ اٹھے ہیں۔
روس، چین، ترکیہ، ایران، پاکستان، لبنان کی حزب اللہ نے فلسطینوں پر ہونے والی بمباری او ر وحشیانہ حملوں کی شدیدمذمت کی ہے لیکن اسرائیل جیسیے جابر، ظالم، بے رحم ، انسان دشمن ”وحشی درندے“ کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔ وہ تو پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ فلسطینوں کی نسل کشی کر رہاہے اور اس کی فضائیہ غزہ کی پٹی اور یہاں موجود فلسطینوں کو ملیامیٹ کرنے کے لیے اس کے چپے چپے پر ہزاروں ٹن بارود کی بارش کررہی ہے جس سے رہائشی بستیاں کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکی ہیں جن میں سینکڑوں فلسطینی بچے بوڑھے عورتیں اور جوان ملبے تلے دب چکے ہیں۔ اس پورے علاقے میں عبادت گاہوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، بجلی گھروں، پانی کے ذخائر، گلیوں، بازاروں کا نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔ دنیا کی مہذب قوموں کو اس بات کا علم ہوچکاہے کہ انسانیت پر ظلم و ستم کرنے میں نیتن یا ہو، مودی اور بائیڈن کا ٹرائیکا سب سے آگے ہے اور کوئی ان کے سامنے کھڑا ہونے والا نہیں ہے اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے خلاف حماس اپنے محدود وسائل کے باوجود زبردست مزاحمت کر رہی ہے اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیسں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل اسرائیلی فوج کے خلاف دو ماہ سے بھی زائد عرصہ سے کامیابی سے بر سر پیکار ہے جس پر طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا اسرائیلی فوجی کمانڈروں کے اوسان خطائ ہورہے ہیں۔ یہ بھی درد بھری داستان ہے کہ مسلمان ممالک اس ”وحشی درندے اسرائیل“ کا مقابلہ کرنے کی اس وقت سکت نہیں رکھتے لیکن اس کا معاشی بائیکاٹ کر کے یہودی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق 57 اسلامی ممالک کی منڈیاں یہودی اداروں کی تیار کردہ مصنوعات سے بھری پڑی ہیں ان کی مصنوعات کا عملاً بائیکاٹ کر کے ہم نہ صرف اسرائیلی فیکٹریوں کا پہیہ جام کرسکتے ہیں بلکہ فلسطینوں پر ہونے والے مظالم کا کسی حد تک بدلہ بھی لے سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسلامی ممالک کی تنظیموں او آئی سی ، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کو متحد ہو کرمتفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کو رکوانے اور غزہ میں مستقل اور فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ، اس کے مستقل ارکان، یورپی یونین اور دیگر اہم ممالک کی مدد حاصل کرنا ہوگی اس مقصد کے حصول کے لیے دنیا کی واحد ”اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان“ کو عملاً آگے بڑھنا ہوگا اورسعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارت، ترکیہ، ایران، افغانستان اور بنگلہ دیش کے تعاون سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر بھرپور سفارتی ڈالنا ہوگا کہ وہ اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ بری بحری اور فضائی حملوں اور فلسطینوں پربارود کی بارش بند کروائے۔ غزہ کی پٹی میں گھرے ہوئے فلسطینوں کو اشیائے خوردونوش ، طبی سہولتوں کی فراہمی اور دیگر امدادی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کرے۔ اسلامی ممالک یاد رکھیں کہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اس وحشی درندے پر قابوپانے کے لیے اسلامی امہ کا اتحاد اور عملی کوشیش وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ عرب دنیا نیتن یاہو کی دھمکی کو کسی صورت بھی نظر انداز نہ کرے کیونکہ وہ جو کچھ شیطانی سوچ سوچتا ہے ا±س پر عمل کرنے سے نہیں چونکتا وہ تو فلسطینوں کی مدد کرنے والے ہر اسلامی ملک کو سبق سکھانے کی روز ہی دھمکیاں دیتا ہے لہٰذامسلمان ممالک کے حکمرانوں کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں ورنہ شام اور لبنان کی طرح یہ وحشی درندہ انہیں بھی اپنی جارحیت کا نشانہ بنا سکتا ہے۔