ٹی ٹی پی صرف ہمارے لیے خطرہ نہیں ہے !!!!!

کیا تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی سے صرف پاکستان کو خطرہ ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس گروہ سے صرف پاکستان میں امن کو خطرات لاحق ہیں تو وہ غلط ہے۔ یہ دہشت گردوں کا ایک ایسا گروہ ہے جس سے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہیں۔ اگر دنیا یہ سمجھتی ہے یا افغان حکومت کا یہ خیال ہے کہ ٹی ٹی پی سے کے لوگ صرف پاکستان کو نشانہ بنائیں گے اور کسی کو کچھ نہیں کہیں گے تو ان کی یہ غلط فہمی بھی جلد دور ہو جائے گی ۔ یہ امن دشمنوں کا گروہ آج کسی اور کا مخالف ہے کل کسی اور کا مخالف ہو گا، آج پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں( جو کہ یہ کبھی نہیں کر سکیں گے، اس مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے) تو کل کسی اور ملک کے امن پر حملہ آور ہوں گے ۔ یہ کسی کے نہ تو دوست ہیں نہ خیر خواہ ہیں اس لیے اگر کوئی یہ بھی سمجھتا ہے کہ انہیں پناہ دے کر وہ کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کر لے گا تو یہ حقیقت بھی جلد دنیا کے سامنے آئے گی۔ امن سب کے لیے ایک جیسا ہے اور اگر کوئی ایک ملک بدامنی کا شکار ہو گا تو اس کے اثرات اردگرد ممالک پر بھی آئیں گے اور دنیا کو بھی اس کے نقصانات برداشت کرنا پڑیں گے ۔ چونکہ پاکستان نے دہشت گردی کےخلاف عالمی جنگ کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے اس لیے دہشت گردوں کے حملوں اور بدامنی کے کیا اثرات ہوتے ہیں ہم اسے آج بھی بھگت رہے ہیں ۔ سرحد کے اس پار سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان گذشتہ کئی ماہ سے اس مسئلے پر مسلسل افغان حکومت سے بات چیت کر رہا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے سب کو مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں امن کو قائم رکھنے کے لیے ہی غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر سختی سے قائم ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں لاکھوں افراد غیر قانونی طور پر مقیم تھے ۔ ان کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا۔ آج بھی ملک کے مختلف شہروں میں غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ چند روز قبل تک مجموعی طور پر چار لاکھ اڑتیس ہزار تین سو چھہتر افغان باشندے ملک واپس لوٹ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی بڑی تعداد موجود تھی، غیر قانونی غیر ملکیوں کی وجہ سے کراچی میں سمگلنگ اور بھتہ خوری بہت عام تھی ۔ پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام پذیر افراد کو واپس بھیجنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن حکومت اس فیصلے پر قائم رہی یقینی طور پر اس حکمت عملی کے مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔ شاید یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پاکستان کے اس فیصلے کے بعد ہی افغان حکومت کو کچھ خیال آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان کی طرف سے بیان آیا ہے کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق گذشتہ ایک برس کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پینتیس سے چالیس ارکان افغانستان  بھر سے پکڑے گئے ہیں۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق داعش کے ارکان بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین کسی ملک بشمول پڑوسی ممالک کےخلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دینگے۔ یہی وہ سوچ ہے جو ناصرف پاکستان اور افغانستان میں پائیدار امن کو یقینی بنا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں ترقی کے سفر کو آسان اور تیز کر سکتی ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کےخلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن دوسری طرف سے کوئی مثبت جواب نہ مل سکا ۔ اب افغان حکومت کی طرف سے یہ بیان اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ کم از کم دنیا کے سامنے یہ موقف تو جائے گا کہ پاکستان میں ہونے والے بدامنی باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور اس کے پیچھے کون ہے ۔ پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا افغان حکومت کے سرد رویے کے پیش نظر ہی کہا تھا کہ "طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغان سرزمین پر موجود ہے۔
دو سال قبل مذاکرات کا جو ڈھونگ رچایا گیا تھا ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے۔ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان کے حوالے کرنا ہے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے یہ فیصلہ اب افغان حکومت نے کرنا ہے۔"
افغان حکومت کو یہ بات جلد سمجھنا ہو گی کہ پاکستان یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی برسوں کی محنت، قربانیوں اور قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کرنے والے امن کو تباہ کرے، پاکستان نے کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا ہے، پاکستان کے شہریوں نے جو اذیت برداشت کی ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آج جب ہم دو ہزار چوبیس کی طرف بڑھ رہے ہیں ہمارے لیے پاکستان میں پائیدار امن سب سے اہم ہے اور اس امن کے دشمنوں کو منطقی انجام تک پہنچانے تک ہر حال میں آپریشن جاری رکھا جائے گا ۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی قیادت کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے مولانا فضل الرحمٰن افغانستان کا دورہ کریں ان پر لازم ہے کہ وہ افغان حکومت پر ٹی ٹی پی اور پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے حوالے سے واضح موقف اپنائیں اور اس معاملے میں ریاست کے بیانیے کو آگے بڑھائیں۔ مولانا کو افغانستان حکومت کی طرف سے دعوت تو ملی ہے اگر وہ جاتے ہیں تو انہیں افغان طالبان کو یہ احساس ضرور دلانا چاہیے کہ پاکستان نے کئی دہائیوں تک افغانستان کے لوگوں کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں پاکستان آج بھی افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا تھا لیکن اس کے باوجود اگر سرحد پار سے ہمارے امن کو نشانہ بنایا جائے اور اس کے بعد یہ کہا جائے کہ ہم پاکستان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرنا چاہتے تو یہ کوئی اچھی بات ہرگز نہیں ہے۔ 
آخر میں جون ایلیا کا کلام
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم 
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
 خموشی سے ادا ہو رسم دوری 
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں 
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
 وفا اخلاص قربانی محبت 
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم 
سنا دیں عصمت مریم کا قصہ 
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
 زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے 
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
 ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم 
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
 کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے 
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
 اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں 
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم 
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے 
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
 نہیں دنیا کو جب پروا ہماری 
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم 
برہنہ ہیں سر بازارتو کیا 
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم 
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی 
سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم
 چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ 
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم 
پڑی ہیں دو انسانوں کی لاشیں 
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
 یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی 
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم

ای پیپر دی نیشن