مہنگی فیسیں چھین رہی ہیں حق تعلیم کا انسانوں سے

شکیل احمد 

علم، انسانی معراج کا ضامن ہے ، یہ وہ پارس پتھر ہے جو کم تر کو برتر بنا دیتا ہے ، جو ملائک کو مسجودِ آدم بنا دیتا ہے۔ علم معیار ہے کارہائے دنیا میں امامت کا۔ 
علم کی اہمیت اور عظمت کے حوالے سے مولانا مودودی کی تحریر کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔ مولانا نے 5 جنوری 1941ءکو دارالعلوم ندو العلما لکھنو کی انجمن طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
”سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اس دنیا میں امامت و قیادت کا مدار آخر ہے کس چیز پر؟ کیا چیز ہے جس کی بنا پر کبھی مصر امام بنتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے چلتی ہے، کبھی یونان امام بنتا ہے اور دنیا اس کی پیروی کرتی ہے اور کبھی اسلام اقوام کا امام بنتا ہے اور دنیا اس کے نقش قدم پر ہولیتی ہے اور کبھی یورپ امام بنتا ہے اور دنیا اس کی متبع بن جاتی ہے؟ آخر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے امامت آج ایک کو ملتی ہے، کل اس سے چھن کر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے اور اس سے سلب ہو کر تیسری کی طرف منتقل ہوجاتی ہے؟ کیا یہ بے ضابطہ اتفاقی امر ہے یا اس کا کوئی ضابطہ ہے؟ اس مسئلے پر جتنا بھی غور کیا جائے اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ ہاں، اس کا ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا۔ انسان کو بحیثیت نوع کے زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ہے“۔
اس وقت دنیا میں کون سی اقوام یا ممالک مناصبِ امامت پہ فائز ہیں؟ وہ ممالک جہاں 100 فیصد شرح خواندگی ہے، وہاں خواندگی کا مطلب ایک خاص درجے تک کی تعلیم حاصل کرنا ہے، دوسری جانب پاکستان ہے، جہاں 60 فیصد شرح خواندگی بھی یوں ہے کہ جس شخص کو اپنا نام خود لکھنا آتا ہو اسے خواندہ قرار دیا جائے۔ 
عجب مذاق روا ہے یہاں نظام کے ساتھ۔
PIDEکی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی 28ملین بچے سکول سے باہر ہیں۔ تعلیمی بجٹ کے لیے ہمیشہ سے ہر سیاسی جماعت کے منشور میں جی ڈی پی کا پانچ فیصد کا نعرہ شامل رہا ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد شعبہ تعلیم بالعموم اور اعلٰی تعلیم بالخصوص کے ساتھ حکومتوں کا کردار سوتیلی ماں جیسا بھی نہیں رہا ہے۔پاکستان میں تعلیمی بجٹ پیش کرنے والے ہمیشہ داد طلب نگاہوں سے چہار جانب نگاہ دوڑانے کے بعد اعلان کیا کرتے ہیں کہ بجٹ میں اتنے فیصد خسارہ ہے ، مگر ایسا بھی کیا خسارہ کہ تعلیم کو ٹوٹے ہوئے ٹھیکرے میں پانی پلایا جائے ؟ موجودہ پاکستانی بجٹ میں تعلیم کے لیے 1.7 فیصد مختص کیا گیا ہے، یعنی صرف 97 ارب روپے۔ جب تک تعلیم بجٹ میں بنیادی و مرکزی حصہ دار نہیں بنے گی ، یا حکومت نا خواندگی کو بنیادی و قومی مسئلہ نہیں سمجھتی، تب تک بجٹ خسارے میں رہے گا۔ اس کا اگر دنیا سے موازنہ کیا جائے تو برطانیہ کا تعلیمی بجٹ کل GDP کا 4.2فیصد ، چین کا 4.01 فیصد ، امریکہ کا 6فیصد ، جبکہ ترکیہ کا 4.7فیصد ہے اور ساو¿تھ ایشیا میں بھارت،بنگلہ دیش،بھوٹان ،نیپال،سری لنکا میں بھی تعلیم کے لیے پاکستان سے زیادہ جی ڈی پی میں حصہ مختص ہے۔
 ان سب کے مقابل، ہم اپنے کل جی ڈی پی کا صرف 1.7فیصد تعلیم کو دے کر کس طرح علم کی شمع روشن کر سکتے ہیں ؟ جس میں سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 59 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ 2022 میں اس مد میں 44 ارب روپے مختص ہوئے تھے، جن میں تحقیق ، یونیورسٹیز کے اخراجات سب شامل ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیز کا دیوالیہ نکل رہا ہے، گومل یونیورسٹی ، پشاور ایگریکلچر یونیورسٹی ، بنوں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی سمیت کئی سرفہرست یونیورسٹیاں شدید مالی خسارے میں چل رہی ہیں۔صرف صوبہ خیبر کی بارہ جامعات اس وقت مالی خسارے اور دیوالیہ کا شکار ہیں۔دنیا بھر کی پانچ سو بہترین جامعات میں پاکستان کی کسی جامعہ کا ذکر موجود نہیں۔
 پری پرائمری اور پرائمری ایجوکیشن کے لیے مجموعی طور پر ساڑھے چار ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ 1.7فیصد کیا حکومت کے تعلیم کے لیے سنجیدہ ہونے کو واضح کرتا ہے؟
لسانیت ، فرقہ واریت اور علاقائیت کے زہر نے ایک جانب تعلیمی نظام کو درہم برہم کر دیا ، اور دوسری جانب ملک کی نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا بھی کیا۔ 
 پاکستان میں طالبات کے لیے مخصوص جامعات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، جبکہ مخصوص گرلز کالجز کا تناسب بھی طلبا کے لیے مخصوص کالجز کے 10:90 ہی ہے، حالانکہ طلبا و طالبات کی تعداد تقریباً برابر ہی ہے۔ 
اس سلسلے میں لازم ہے کہ طالبات کے لیے الگ تعلیمی اداروں کا قیام یقینی بنایا جائے۔ طلبہ کے مرد اور طالبات کے لیے خواتین کو ہی بطور استاد مقرر کیا جائے۔ کالجز اور جامعات میں طالبات کی ریشو میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
جامعہ کراچی میں طالبات کا تناسب 84فیصد جبکہ جامعہ پنجاب اور جامعہ قائد میں یہ تناسب 60 فیصد سے بڑھ چکا ہے اور کم و بہش یہی صورت حال کالجز میں بھی ہے۔اس سب کے نتیجے میں معاشرے میں ایک عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن