عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
روانی کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی نہ ہو تو بچے کی شخصیت میں کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہکلاہٹ بچے سے اس کی خود اعتمادی چھین لیتی ہے۔ جب بہت سارے بچے ایک ساتھ کھیل رہے ہو ں اور ان میں ایک بچہ ایسا ہو جو اپنی بات ہکلاکر یا توتلا کر کر رہا ہو اس وقت سننے والے دوسرے بچوں کا رد عمل اگر آپ دیکھیں تو وہ دل توڑ دینے والا ہوتا ہے۔
اگر وقت پر بچے کی اس خامی پر قابو نہ پایا جا سکے تو ساری زندگی کے لیے ہکلانے والے بچے کے مخصوص نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔ جس کے بعد بڑے ہونے پر بھی وہ بچہ اپناسوشل حلقہ نہیں بنا پاتا۔ کھل کر اپنی بات نہیں کر سکتا یہاں تک کہ سکول میں سبق یاد ہونے کے باوجود بچہ شرماہٹ اور جھجک کی وجہ سے ٹیچر کو سبق نہیں سنا پاتا۔اس کی خود اعتمادی کم ہو جاتی ہے۔ یہ بات ان کے ذہن میں رہتی ہے کہ اگر میں کچھ غلط بول دوں گا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔‘
ماہرین امراض اطفال کا کہنا ہے کہ یہ غور کرناکہ بچہ ہکلاہٹ کا شکار ہے یا نہیں اس بات کا ادراک والدین اس وقت کر سکتے ہیں جب بچہ بولنا شروع ہو۔ شروع میں تمام بچے رک رک کر بولتے ہیں لیکن دو یا تین سال کی عمر میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کا بچہ ہکلاہٹ کا شکار ہے یا نہیں۔ کئی والدین یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ انھیں یہ لگتا ہے کہ سبھی بچے ابتداءمیں ہکلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ جو بچے دیر سے بولنا شروع ہوتے ہیں ان میں بھی ہکلا کر بولنے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر بچے کے ذہن میں کوئی خوف ہو تب بھی اس کی زبان پر اثر پڑتا ہے۔ہکلانے کی اہم وجہ یہ ہے کہ جب بچہ بولنا چاہتا ہے تو دماغ سے آنے والا میسج زبان تک دیر سے آتا ہے اس لئے بچہ اپنے منہ کے مسلز کو بولنے کے لئے صحیح طرح استعمال نہیں کر پاتا۔ہکلا پن فیملی میں بھی ہوتا ہے۔یعنی اگر خاندان کے دوسرے لوگ ہکلاتے ہیں تو بچے میں بھی ہکلا ہٹ آجاتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ جس بچے کی فیملی میں ہکلا پن ہو تو وہ بھی ہکلا ہوگا۔اینزائٹی یا اسٹریس کی وجہ سے ہکلا پن نہیں ہوتانہ بچے میں یہ عادت کسی دوسرے کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے اور نہ بچہ اپنی اس عادت پر کنٹرول کر سکتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق آٹھ فیصد بچے بولتے ہوئے کسی نہ کسی موقع پر ہکلاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر بچوں میں یہ مسئلہ وقت کے ساتھ دور ہو جاتا ہے لیکن بہت ساروں میں تھوڑا فرق نظر آتا ہے جب کہ کچھ بچوں میں بالکل کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
والدین یہ جان لیں کہ ہکلاہٹ کے تین درجے ہیں۔
کم ہکلاہٹ، معتدل ہکلاہٹ، جو معمول سے زیادہ ہوتے ہیں اورشدید ہکلاہٹ۔
’جن بچوں کو کم ہکلاہٹ ہوتی ہے وہ جلدی ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ جن کا معتدل ہکلاہٹ کا مسئلہ ہے ان میں چار سے پانچ مہینے کی تھیرپی کے بعد کافی بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔‘
شدید ہکلاہٹ سے متاثرہ لوگوں کا علاج تھوڑا پیچیدہ ہوتا ہے، اس پر خرچہ بھی زیادہ آتا ہے اور بچوں کی طرف سے محنت بھی درکار ہوتی ہے۔
ہکلاہٹ دور کرنے کے لیے سپیچ تھراپی سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ یہ کاﺅنسلنگ ہے جس اس خامی پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
بچے کی لکنت دور کرنے کا سب سے کامیاب علاج لمب کومب تھراپی ہے۔اس سے بچے کی لکنت میں کافی کمی آتی ہے اور ایک وقت پر آکر ہکلاہٹ ختم ہوجاتی ہے۔لمب کومب تھراپی 6سال سے کم عمر بچوں کے لئے بہترین ہے ،اس کے علاوہ یہ بڑے بچوں کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے۔یہ تھراپی آپ اور آپ کا بچہ گھر پر بھی آسانی سے کر سکتے ہیں ،اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بچہ جب بھی بغیر ہکلائے بات کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اگر آپ کے سامنے کوئی بچہ ہکلا رہا ہو تو اس کی بات سنتے ہوئے یہ چند کام کریں۔
جلدی سے ان کے جملے مکمل کرنے کی کوشش نہ کریں۔
صبر کریں، جب وہ بات کر رہے ہوں تو انھیں کاٹ کر اپنی بات نہ شروع کریں۔ انھیں جلدی یا آہستہ بات کرنے کو نہ کہیں۔
توجہ اس پر دیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ بات کیسے کر رہے ہیں۔ جب بچے سے بات کریں تو آرام سے بولیں۔ چھوٹے جملے اور آسان زبان کا استعمال کریں۔انھیں آپ کی بات سمجھنے کے لیے مکمل وقت دیں۔