ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے کہا ہے کہ جمہوریت قرآن کے منافی نظام ہے میں اسے کفر سمجھتا ہوں۔
مالا کنڈ ڈویژن بشمول کوہستان ہزارہ میں نفاذ شریعت کے معاہدے اور سوات میں قیام امن کیلئے مولانا صوفی محمد کی کاوش کو پورے پاکستان میں سراہا جا رہا ہے۔ نفاذ شریعت کے معاہدے کا پورے سوات اور صوبہ سرحد میں والہانہ خیرمقدم کیا گیا ہے سوات میں تین دن سے جشن کا سماں ہے معمولات زندگی بحال ہو چکے ہیں اور دفتروں‘ سکولوں اور بازاروں میں رش دیکھ کر ہر گز احساس نہیں ہوتا کہ تین دن پیشتر تک یہاں ہو کا عالم تھا اور لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے تھے۔ سوات میں مولانا صوفی محمد کی ایک اور امن کیمپ سے یہ خوشگوار توقع وابستہ کی جا رہی ہے کہ یہ امن پائیدار ہوگا دوبارہ سوات کبھی ان حالات کا سامنا نہیں کرے گا جو دو سال تک یہاں کے عوام کا مقدر بنے رہے۔
مولانا صوفی محمد کی طرف سے نفاذ شریعت کا مطالبہ بے جا نہیں اور ملک کے دوسرے حصوں کے عوام کے علاوہ دانشور‘ سیاستدان اور ذرائع ابلاغ ان کے مطالبات کی حمائت کرتے رہے ہیں مگر جمہوریت کے بارے میں ان کے خیالات پورے ملک کے عوام کیلئے تعجب اور ذہنی تکلیف کا باعث بنے ہیںآج کے دور میں جبکہ تمام مسلم ممالک کی دینی اور مذہبی جماعتیں بھی جمہوریت کے قیام کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں اور دنیا بھر کے جید علماء جمہوریت کو اسلام کے شورائی نظام کا نعم البدل تصور کرتے ہیں۔ مولانا صوفی محمد کا جمہوریت کو کفر اور غیر قرآنی نظام قراردینا افسوس ناک ہے حالانکہ ووٹ کے ذریعے پاکستان کا قیام ہی مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے اور پاکستان کے مسلم عوام نے گزشتہ باسٹھ سال کے دوران جمہوریت کے احیا اور استحکام کیلئے جتنی قربانیاں دی ہیں وہ شائد کسی دوسرے ملک کے عوام نے نہیں دیں۔
اسلامیان برصغیر نے قیام پاکستان سے قبل یہ طے کرلیا تھا کہ وہ نوزائیدہ ملک میں اسلامی تعلیمات کے مطابق جمہوری نظام چلائیں گے اور دنیا پر ثابت کریں گے کہ مسلمان اپنے معاملات جمہوری انداز میں مشاورت اور عوام کی رائے کے مطابق چلانے کے اہل ہیں۔ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے ایک ماہ قبل 14جولائی 1947ء کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال قبل سیکھ لی تھی‘‘ بانی پاکستان نے میمن چیمبر آف کامرس بمبئی میں خطاب کرتے ہوئے ہندوئوں کو یقین دلایا ’’پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور برادرانہ سلوک کیا جائیگا جمہوریت مسلمانوں کے رگ و ریشے میں ہے اور ہم نے ہمیشہ مساوات‘ اخوت اور استقلال کو پیش نظر رکھا ہے‘‘ (27 مارچ 1947ئ)
برصغیر کی کانگریسی قیادت کے علاوہ نیشنلسٹ مسلمانوں اور متحدہ قومیت کے حامی علماء کی طرف سے بھی مسلم لیگ پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ پاکستان میں جمہوری نظام قائم نہیں ہوگا جس کے جواب میںقائدؒ اور ان کے ساتھیوں بالخصوص مولانا شبیر احمد عثمانیؒ‘ مولانا عبدالحامد بدایونیؒ‘مولانا مفتی محمد شفیع وغیرہ کی طرف سے یہ مژدہ سنایا جاتا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ اور جمہوریت کا گڑھ ہوگا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد تمام مکاتب فکر کے جید‘ غیر متنازع اور اسلامی تعلیمات پر مکمل عبور رکھنے والے علماء کرام نے /22نکات مرتب کئے جس کی روشنی میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی اور آج تک آئین کا حصہ ہے اس میں بھی جمہوری پارلیمانی نظام پر اتفاق رائے نظر آتا ہے جو کم از کم پاکستان کی حد تک اجماع ہے لہٰذا صوفی محمد کا اس موقع پر جبکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو مطعون کیا جارہا ہے کہ وہ آمریت‘ ملوکیت‘ عسکریت پسندی اور جنگجوئوں کو فروغ دے رہے ہیں اور اس مغربی تہذیب کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں جس نے دنیا کو جمہوریت جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ جمہوریت کو کفر قراردینا نہ صرف اپنے اور اپنے پیروکاروں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی سخت زیادتی ہے۔ بہتر ہوگا آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بغور مطالعہ فرمالیں۔
مغربی طرز کی مادر پدر آزاد جمہوریت نہ تو کسی مسلمان کا مطمح نظر ہے اور نہ کسی مسلمان ملک میں چل سکتی ہے لیکن اسلام کے شورائی نظام کو جمہوریت سے الگ تھلگ کوئی چیز سمجھ کر ایک ایسے نظام کی مخالفت کرنا جس پر کم و بیش اجماع امت نظر آتا ہے دنیا کے سامنے مذاق بننے اور موجودہ حالات میں اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ اگر یہ مولانا صوفی محمد کا نقطہ نظربھی ہے تو اس کے اظہار کا یہ موقع نہیں کیونکہ نفاذ شریعت کے معاہدے کے مخالفین امریکہ و یورپ کے علاوہ پاکستان میں ان کے گماشتہ عناصر کو بھی منفی پروپیگنڈے کا موقع ملے گا اور یہ تاثر پختہ ہوگا کہ صوفی محمد اور ان کے پیروکار پاکستان میں جمہوریت کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی موجودہ جدوجہد بالآخر جمہوریت کی رخصتی اور طالبان طرز کے سخت گیرمذہبی نظام کی واپسی کا سبب بنے گی جس میں چند مذہبی لیڈر اسلام کی من پسند تعبیر و تشریح کو پوری قوم پر مسلط کریں گے اور جس میں اظہار رائے کی آزادی اور ملکی معاملات میں عوام کی براہ راست شرکت کا کوئی تصور نہیں ہوگا ظاہر ہے کہ اقبالؒ اور قائدؒ کے پاکستان میں اس قسم کی مذہبی پیشوائیت کو نہ تو کبھی پذیرائی مل سکتی ہے اور نہ قدیم طرز کے ملوکانہ قبائلی نظام کی کوئی گنجائش ہے اس لئے مولانا صوفی محمد اور ان کے پیروکار مالا کنڈ میں نفاذ شریعت اور سوات میں قیام امن تک محدود رہیں اور ایسے مباحث نہ چھیڑیں جس سے نہ صرف ان کی اپنی پوزیشن خراب ہو بلکہ قیام امن کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان مزید کسی انتشار کا شکار ہو یہ ملک کے مغرب نواز اور اباحیت پسند طبقے کو منفی پروپیگنڈے کا ہتھیار فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ جدید پارلیمانی جمہوری نظام ہی چل سکتا ہے اور ضرور چلے گا جس کے ذریعے یہ ملک واقعی اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بن کر عالم اسلام کی رہنمائی کریگا(انشاء اللہ)
ایف آئی اے کی ٹیم بھارت بھجوانے کی جلدی کیوں؟
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا ہے کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارت نے معلومات کے تبادلے اور تحقیقات کو مزید نتیجہ خیز بنانے کیلئے پاکستانی ٹیم بھارت بھجوانے کی خواہش ظاہر کی ہے جس پر ہم سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ ایف آئی اے کی اعلیٰ سطح کی ٹیم بھارت بھجوائی جائے۔ گزشتہ روز بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر کے افتتاح کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی ٹیم بھارت بھجوانے سے ممبئی حملوں کی تحقیقات آگے بڑ ھانے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکرجی نے پاکستان کے ساتھ جنگ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اجمل قصاب کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے نئی دہلی میں بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجمل قصاب پر بھارت میں ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔
یہ افسوسناک صورت حال ہے کہ بھارت تو مسئلہ کشمیر کی طرح ممبئی دھماکوں کے حوالے سے بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اپنی من مرضی کی تحقیقات چاہتا ہے تاکہ وہ ممبئی حملوں میں اپنے بیان کردہ پاکستان کے ریاستی عناصر کے کردار کو ثابت کرسکے اور اس بنیاد پر ہم پر دہشت گردی کا ملبہ ڈال سکے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے بھی ممبئی حملوں کے بارے میں اپنے اقدامات و اعلانات سے بھارت کے مئوقف کو تقویت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اجمل قصاب کی پاکستان کی شہریت بھی تسلیم کرلی اور کشمیری جہادی تنظیم لشکر طیبہ کے ممبئی حملوں پر کردار کی بھی گواہی دے کر مولانا ذکی الرحمان لکھوی سمیت اس تنظیم کے متعدد عہدے داروں کو گرفتار کرلیا۔ بھارت تو ممبئی حملوں کے سارے معاملات اپنے ملک میں ہی رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان سے مبینہ ملزموں کی بھارت حوالگی کا تقاضہ کرتا رہتا ہے جبکہ ہمارے حکمران بھارت کے ہر مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے شروع میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھارت بھجوانے کا مطالبہ کیا گیا تو ہماری حکومت اس پر بھی آمادہ و تیار ہوگئی۔ اگر مقتدر قوتوں کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو یہ ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دیا جاچکا ہوتا۔ اب حکومت ایف آئی اے کی ٹیم بھارت بھجوانے کی جلدی میں نظر آتی ہے جبکہ اصولی طور پر حکومت کو بھارت سے اجمل قصاب کی پاکستان حوالگی کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ اسلام آباد میں اس کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر اس سے تفتیش کرکے حقائق کی تہہ تک پہنچا جاسکے اور اگر بھارت اجمل قصاب کو پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار نہیں جیسا کہ بھارتی وزیرخارجہ نے اعلان کیا ہے تو پھر ہمیں اپنی کوئی ٹیم بھارت بھیجنے اور اس کے ہر مطالبے پر سرتسلیم خم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جو ہماری سالمیت پر وار کرنے کے موقع کی تاک میں رہتا ہے اس لئے ہمارے حکمرانوں کو ممبئی حملوں کے حوالے سے اس کے کسی ٹریپ میں نہیں آنا چاہئے۔
امن دشمنوں پر نظر رکھیں
سرحد حکومت اور تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی کے درمیان معاہدے کے بعد سوات میں بڑی تیزی سے حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے گھروں کو واپس آ رہے ہیں اور علاقے میں تعلیمی ادارے بلاامتیاز کھل چکے ہیں۔ یہ معاہدہ آگے چل کر پورے ملک خصوصی طور پر قبائلی علاقوں میں امن کی اساس ثابت ہو سکتا ہے۔ سوات میں قیام امن پر جہاں مقامی سطح پر خوشیاں منائی گئیں‘ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں وہیں پورے ملک کے محب وطن طبقات نے اطمینان کا اظہار کیا اور سکھ کا سانس لیا۔ عالمی سطح پر بھی معاہدے کی پذیرائی دیکھنے میں آئی۔ تاہم معاہدے کے بعد شمالی علاقہ جات میں امن قائم ہوتا دیکھ کر کچھ حلقے‘ کچھ طبقے اور کچھ ممالک کی حکومتیں تکلیف میں مبتلا ہیں۔ امریکہ نے تو برملا اپنے تحفظات ظاہر کر دئیے۔ قبائلی علاقوں میں کچھ غیر ملکی ایجنٹ بھی سرگرم ہیں۔ امن کے دشمنوں نے مذکورہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں ان میں باجوڑ میں 2 گرلز سکولوں کو مسمار کرنا اور سوات میں ایک صحافی کا قتل بھی اسی سازش کے زمرے میں آتا ہے‘‘ اے این پی حکومت کا معاہدے اور بعدازاں اس پر کاربند رہنے کا عزم قابل تحسین ہے۔ مولانا صوفی محمد اور ان کے ساتھیوں کی گزشتہ روز سرکٹ ہائوس پشاور میں سرحد کے وزراء سے ملاقات کے بعد اے این پی کے رہنما بشیر بلور نے بھی واضح کیا ہے کہ سرحد حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مابین طے پانے والے معاہدے کو کوئی سبوتاژ نہیں کرسکتا۔ فریقین کو اب ان عناصر پر بھی کڑی نظر رکھنا ہو گی جو معاہدے سے ناخوش اور اس کے خاتمے کے لئے سرگرم ہیں۔
بلوچستان پر قومی کانفرنس‘ وزیراعلیٰ پنجاب کی خوش آئند تجویز
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے بلوچستان کے مسائل حل کرنے کیلئے قومی کانفرنس بلائی جائے ‘ بلوچ عوام سے عملاً معافی مانگنا ہوگی۔ پاکستان چار صوبوں کا مجموعہ ہے اور ان چاروں صوبوں کے عوام کے مسائل بھی مشترکہ ہیں‘ جن کے حل کیلئے تمام صوبوں کو اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے۔ قومی یکجہتی اتنی ہی ضروری ہے جتنی خود قوم۔ کسی بھی صوبے کے عوام مکمل طور پر خوشحال نہیں لیکن اسکے باوجود وہ ایک وفاق کی صورت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اگر انکے مسائل حل کر دئیے جائیں وسائل و فنڈز کی تقسیم عادلانہ بنا دی جائے‘ ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع دئیے جائیں اور بالخصوص تعلیم کے میدان میں ہر صوبے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے تو اس قسم کی باتیں ختم ہو جائینگی کہ فلاں صوبے کو فلاں کھا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی یہ تجویز بہت مناسب ہے کہ قومی کانفرنس بلائی جائے اور بلوچ عوام جو کافی رنجیدہ خاطر ہیں‘ اُن سے عملی معافی مانگی جائے۔ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کیلئے قرارداد پاکستان کے مطابق نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ پاکستان کی خوشحالی کا دارومدار اسلام آباد پر نہیں چاروں صوبوں پر ہے۔ اسلام آباد بھی خوشحالی دے مگر چاروں صوبوں کی خوشحالی کا سامان کر کے۔ بلوچستان کئی لحاظ سے پاکستان کے بننے سے لیکر آج تک ڈسٹرب چلا آ رہا ہے۔ فوجی حکومتوں کے غلط فیصلوں نے وہاں ظلم کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر ہنوز بنجر ہے جبکہ اس کی زمین میں بڑا جوہر ہے۔ اگر بلوچستان کو ابتدا ہی سے زرعی اور صنعتی طور پر توجہ دی جاتی تو وہاں کے لوگ صرف بھیڑ بکریاں نہ چرا رہے ہوتے۔ اپنی جنت میں رہ رہے ہوتے گوادر بندرگاہ کے حوالے سے ابھی تک بلوچستان کیساتھ انصاف نہیں کیا گیا صرف معافی مانگنے سے مسائل حل نہ ہوں گے۔ بلوچستان کیلئے ایک جامع منصوبہ بنانا ہوگا اور اُس پر عملدرآمد کرانے کیلئے بھی مناسب بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
مالا کنڈ ڈویژن بشمول کوہستان ہزارہ میں نفاذ شریعت کے معاہدے اور سوات میں قیام امن کیلئے مولانا صوفی محمد کی کاوش کو پورے پاکستان میں سراہا جا رہا ہے۔ نفاذ شریعت کے معاہدے کا پورے سوات اور صوبہ سرحد میں والہانہ خیرمقدم کیا گیا ہے سوات میں تین دن سے جشن کا سماں ہے معمولات زندگی بحال ہو چکے ہیں اور دفتروں‘ سکولوں اور بازاروں میں رش دیکھ کر ہر گز احساس نہیں ہوتا کہ تین دن پیشتر تک یہاں ہو کا عالم تھا اور لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے تھے۔ سوات میں مولانا صوفی محمد کی ایک اور امن کیمپ سے یہ خوشگوار توقع وابستہ کی جا رہی ہے کہ یہ امن پائیدار ہوگا دوبارہ سوات کبھی ان حالات کا سامنا نہیں کرے گا جو دو سال تک یہاں کے عوام کا مقدر بنے رہے۔
مولانا صوفی محمد کی طرف سے نفاذ شریعت کا مطالبہ بے جا نہیں اور ملک کے دوسرے حصوں کے عوام کے علاوہ دانشور‘ سیاستدان اور ذرائع ابلاغ ان کے مطالبات کی حمائت کرتے رہے ہیں مگر جمہوریت کے بارے میں ان کے خیالات پورے ملک کے عوام کیلئے تعجب اور ذہنی تکلیف کا باعث بنے ہیںآج کے دور میں جبکہ تمام مسلم ممالک کی دینی اور مذہبی جماعتیں بھی جمہوریت کے قیام کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں اور دنیا بھر کے جید علماء جمہوریت کو اسلام کے شورائی نظام کا نعم البدل تصور کرتے ہیں۔ مولانا صوفی محمد کا جمہوریت کو کفر اور غیر قرآنی نظام قراردینا افسوس ناک ہے حالانکہ ووٹ کے ذریعے پاکستان کا قیام ہی مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے اور پاکستان کے مسلم عوام نے گزشتہ باسٹھ سال کے دوران جمہوریت کے احیا اور استحکام کیلئے جتنی قربانیاں دی ہیں وہ شائد کسی دوسرے ملک کے عوام نے نہیں دیں۔
اسلامیان برصغیر نے قیام پاکستان سے قبل یہ طے کرلیا تھا کہ وہ نوزائیدہ ملک میں اسلامی تعلیمات کے مطابق جمہوری نظام چلائیں گے اور دنیا پر ثابت کریں گے کہ مسلمان اپنے معاملات جمہوری انداز میں مشاورت اور عوام کی رائے کے مطابق چلانے کے اہل ہیں۔ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے ایک ماہ قبل 14جولائی 1947ء کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال قبل سیکھ لی تھی‘‘ بانی پاکستان نے میمن چیمبر آف کامرس بمبئی میں خطاب کرتے ہوئے ہندوئوں کو یقین دلایا ’’پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور برادرانہ سلوک کیا جائیگا جمہوریت مسلمانوں کے رگ و ریشے میں ہے اور ہم نے ہمیشہ مساوات‘ اخوت اور استقلال کو پیش نظر رکھا ہے‘‘ (27 مارچ 1947ئ)
برصغیر کی کانگریسی قیادت کے علاوہ نیشنلسٹ مسلمانوں اور متحدہ قومیت کے حامی علماء کی طرف سے بھی مسلم لیگ پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ پاکستان میں جمہوری نظام قائم نہیں ہوگا جس کے جواب میںقائدؒ اور ان کے ساتھیوں بالخصوص مولانا شبیر احمد عثمانیؒ‘ مولانا عبدالحامد بدایونیؒ‘مولانا مفتی محمد شفیع وغیرہ کی طرف سے یہ مژدہ سنایا جاتا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ اور جمہوریت کا گڑھ ہوگا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد تمام مکاتب فکر کے جید‘ غیر متنازع اور اسلامی تعلیمات پر مکمل عبور رکھنے والے علماء کرام نے /22نکات مرتب کئے جس کی روشنی میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی اور آج تک آئین کا حصہ ہے اس میں بھی جمہوری پارلیمانی نظام پر اتفاق رائے نظر آتا ہے جو کم از کم پاکستان کی حد تک اجماع ہے لہٰذا صوفی محمد کا اس موقع پر جبکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو مطعون کیا جارہا ہے کہ وہ آمریت‘ ملوکیت‘ عسکریت پسندی اور جنگجوئوں کو فروغ دے رہے ہیں اور اس مغربی تہذیب کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں جس نے دنیا کو جمہوریت جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ جمہوریت کو کفر قراردینا نہ صرف اپنے اور اپنے پیروکاروں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی سخت زیادتی ہے۔ بہتر ہوگا آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بغور مطالعہ فرمالیں۔
مغربی طرز کی مادر پدر آزاد جمہوریت نہ تو کسی مسلمان کا مطمح نظر ہے اور نہ کسی مسلمان ملک میں چل سکتی ہے لیکن اسلام کے شورائی نظام کو جمہوریت سے الگ تھلگ کوئی چیز سمجھ کر ایک ایسے نظام کی مخالفت کرنا جس پر کم و بیش اجماع امت نظر آتا ہے دنیا کے سامنے مذاق بننے اور موجودہ حالات میں اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ اگر یہ مولانا صوفی محمد کا نقطہ نظربھی ہے تو اس کے اظہار کا یہ موقع نہیں کیونکہ نفاذ شریعت کے معاہدے کے مخالفین امریکہ و یورپ کے علاوہ پاکستان میں ان کے گماشتہ عناصر کو بھی منفی پروپیگنڈے کا موقع ملے گا اور یہ تاثر پختہ ہوگا کہ صوفی محمد اور ان کے پیروکار پاکستان میں جمہوریت کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی موجودہ جدوجہد بالآخر جمہوریت کی رخصتی اور طالبان طرز کے سخت گیرمذہبی نظام کی واپسی کا سبب بنے گی جس میں چند مذہبی لیڈر اسلام کی من پسند تعبیر و تشریح کو پوری قوم پر مسلط کریں گے اور جس میں اظہار رائے کی آزادی اور ملکی معاملات میں عوام کی براہ راست شرکت کا کوئی تصور نہیں ہوگا ظاہر ہے کہ اقبالؒ اور قائدؒ کے پاکستان میں اس قسم کی مذہبی پیشوائیت کو نہ تو کبھی پذیرائی مل سکتی ہے اور نہ قدیم طرز کے ملوکانہ قبائلی نظام کی کوئی گنجائش ہے اس لئے مولانا صوفی محمد اور ان کے پیروکار مالا کنڈ میں نفاذ شریعت اور سوات میں قیام امن تک محدود رہیں اور ایسے مباحث نہ چھیڑیں جس سے نہ صرف ان کی اپنی پوزیشن خراب ہو بلکہ قیام امن کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان مزید کسی انتشار کا شکار ہو یہ ملک کے مغرب نواز اور اباحیت پسند طبقے کو منفی پروپیگنڈے کا ہتھیار فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ جدید پارلیمانی جمہوری نظام ہی چل سکتا ہے اور ضرور چلے گا جس کے ذریعے یہ ملک واقعی اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بن کر عالم اسلام کی رہنمائی کریگا(انشاء اللہ)
ایف آئی اے کی ٹیم بھارت بھجوانے کی جلدی کیوں؟
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا ہے کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارت نے معلومات کے تبادلے اور تحقیقات کو مزید نتیجہ خیز بنانے کیلئے پاکستانی ٹیم بھارت بھجوانے کی خواہش ظاہر کی ہے جس پر ہم سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ ایف آئی اے کی اعلیٰ سطح کی ٹیم بھارت بھجوائی جائے۔ گزشتہ روز بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر کے افتتاح کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی ٹیم بھارت بھجوانے سے ممبئی حملوں کی تحقیقات آگے بڑ ھانے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکرجی نے پاکستان کے ساتھ جنگ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اجمل قصاب کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے نئی دہلی میں بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجمل قصاب پر بھارت میں ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔
یہ افسوسناک صورت حال ہے کہ بھارت تو مسئلہ کشمیر کی طرح ممبئی دھماکوں کے حوالے سے بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اپنی من مرضی کی تحقیقات چاہتا ہے تاکہ وہ ممبئی حملوں میں اپنے بیان کردہ پاکستان کے ریاستی عناصر کے کردار کو ثابت کرسکے اور اس بنیاد پر ہم پر دہشت گردی کا ملبہ ڈال سکے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے بھی ممبئی حملوں کے بارے میں اپنے اقدامات و اعلانات سے بھارت کے مئوقف کو تقویت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اجمل قصاب کی پاکستان کی شہریت بھی تسلیم کرلی اور کشمیری جہادی تنظیم لشکر طیبہ کے ممبئی حملوں پر کردار کی بھی گواہی دے کر مولانا ذکی الرحمان لکھوی سمیت اس تنظیم کے متعدد عہدے داروں کو گرفتار کرلیا۔ بھارت تو ممبئی حملوں کے سارے معاملات اپنے ملک میں ہی رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان سے مبینہ ملزموں کی بھارت حوالگی کا تقاضہ کرتا رہتا ہے جبکہ ہمارے حکمران بھارت کے ہر مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے شروع میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھارت بھجوانے کا مطالبہ کیا گیا تو ہماری حکومت اس پر بھی آمادہ و تیار ہوگئی۔ اگر مقتدر قوتوں کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو یہ ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دیا جاچکا ہوتا۔ اب حکومت ایف آئی اے کی ٹیم بھارت بھجوانے کی جلدی میں نظر آتی ہے جبکہ اصولی طور پر حکومت کو بھارت سے اجمل قصاب کی پاکستان حوالگی کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ اسلام آباد میں اس کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر اس سے تفتیش کرکے حقائق کی تہہ تک پہنچا جاسکے اور اگر بھارت اجمل قصاب کو پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار نہیں جیسا کہ بھارتی وزیرخارجہ نے اعلان کیا ہے تو پھر ہمیں اپنی کوئی ٹیم بھارت بھیجنے اور اس کے ہر مطالبے پر سرتسلیم خم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جو ہماری سالمیت پر وار کرنے کے موقع کی تاک میں رہتا ہے اس لئے ہمارے حکمرانوں کو ممبئی حملوں کے حوالے سے اس کے کسی ٹریپ میں نہیں آنا چاہئے۔
امن دشمنوں پر نظر رکھیں
سرحد حکومت اور تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی کے درمیان معاہدے کے بعد سوات میں بڑی تیزی سے حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے گھروں کو واپس آ رہے ہیں اور علاقے میں تعلیمی ادارے بلاامتیاز کھل چکے ہیں۔ یہ معاہدہ آگے چل کر پورے ملک خصوصی طور پر قبائلی علاقوں میں امن کی اساس ثابت ہو سکتا ہے۔ سوات میں قیام امن پر جہاں مقامی سطح پر خوشیاں منائی گئیں‘ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں وہیں پورے ملک کے محب وطن طبقات نے اطمینان کا اظہار کیا اور سکھ کا سانس لیا۔ عالمی سطح پر بھی معاہدے کی پذیرائی دیکھنے میں آئی۔ تاہم معاہدے کے بعد شمالی علاقہ جات میں امن قائم ہوتا دیکھ کر کچھ حلقے‘ کچھ طبقے اور کچھ ممالک کی حکومتیں تکلیف میں مبتلا ہیں۔ امریکہ نے تو برملا اپنے تحفظات ظاہر کر دئیے۔ قبائلی علاقوں میں کچھ غیر ملکی ایجنٹ بھی سرگرم ہیں۔ امن کے دشمنوں نے مذکورہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں ان میں باجوڑ میں 2 گرلز سکولوں کو مسمار کرنا اور سوات میں ایک صحافی کا قتل بھی اسی سازش کے زمرے میں آتا ہے‘‘ اے این پی حکومت کا معاہدے اور بعدازاں اس پر کاربند رہنے کا عزم قابل تحسین ہے۔ مولانا صوفی محمد اور ان کے ساتھیوں کی گزشتہ روز سرکٹ ہائوس پشاور میں سرحد کے وزراء سے ملاقات کے بعد اے این پی کے رہنما بشیر بلور نے بھی واضح کیا ہے کہ سرحد حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مابین طے پانے والے معاہدے کو کوئی سبوتاژ نہیں کرسکتا۔ فریقین کو اب ان عناصر پر بھی کڑی نظر رکھنا ہو گی جو معاہدے سے ناخوش اور اس کے خاتمے کے لئے سرگرم ہیں۔
بلوچستان پر قومی کانفرنس‘ وزیراعلیٰ پنجاب کی خوش آئند تجویز
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے بلوچستان کے مسائل حل کرنے کیلئے قومی کانفرنس بلائی جائے ‘ بلوچ عوام سے عملاً معافی مانگنا ہوگی۔ پاکستان چار صوبوں کا مجموعہ ہے اور ان چاروں صوبوں کے عوام کے مسائل بھی مشترکہ ہیں‘ جن کے حل کیلئے تمام صوبوں کو اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے۔ قومی یکجہتی اتنی ہی ضروری ہے جتنی خود قوم۔ کسی بھی صوبے کے عوام مکمل طور پر خوشحال نہیں لیکن اسکے باوجود وہ ایک وفاق کی صورت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اگر انکے مسائل حل کر دئیے جائیں وسائل و فنڈز کی تقسیم عادلانہ بنا دی جائے‘ ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع دئیے جائیں اور بالخصوص تعلیم کے میدان میں ہر صوبے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے تو اس قسم کی باتیں ختم ہو جائینگی کہ فلاں صوبے کو فلاں کھا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی یہ تجویز بہت مناسب ہے کہ قومی کانفرنس بلائی جائے اور بلوچ عوام جو کافی رنجیدہ خاطر ہیں‘ اُن سے عملی معافی مانگی جائے۔ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کیلئے قرارداد پاکستان کے مطابق نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ پاکستان کی خوشحالی کا دارومدار اسلام آباد پر نہیں چاروں صوبوں پر ہے۔ اسلام آباد بھی خوشحالی دے مگر چاروں صوبوں کی خوشحالی کا سامان کر کے۔ بلوچستان کئی لحاظ سے پاکستان کے بننے سے لیکر آج تک ڈسٹرب چلا آ رہا ہے۔ فوجی حکومتوں کے غلط فیصلوں نے وہاں ظلم کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر ہنوز بنجر ہے جبکہ اس کی زمین میں بڑا جوہر ہے۔ اگر بلوچستان کو ابتدا ہی سے زرعی اور صنعتی طور پر توجہ دی جاتی تو وہاں کے لوگ صرف بھیڑ بکریاں نہ چرا رہے ہوتے۔ اپنی جنت میں رہ رہے ہوتے گوادر بندرگاہ کے حوالے سے ابھی تک بلوچستان کیساتھ انصاف نہیں کیا گیا صرف معافی مانگنے سے مسائل حل نہ ہوں گے۔ بلوچستان کیلئے ایک جامع منصوبہ بنانا ہوگا اور اُس پر عملدرآمد کرانے کیلئے بھی مناسب بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔