وزیراعظم گیلانی پیر ہیں اور انہوں نے آخر اپنا رول ادا کرتے ہوئے صورتحال کو مُرید کر لیا یہ تو اچھا ہوا کہ صدر زرداری کے ارد گرد وہ موجود تھے۔ وگرنہ جو پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے تو لاموجود کا نعرہ بلند کر دیا تھا اور صدر صاحب کو ایک ایسی کھائی میں اتار دیا تھا جہاں ایک ایک کر کے سب نے گر جانا تھا صدر صاحب کے پاس پارٹی کے اندر بڑے بڑے صاحب فہم اور کہنہ مشق سیاست دان موجود ہیں مگر انہوں نے ہوا دینے والے تین پتوں پر ہی گزارا کر لیا تھا۔ بھلا ہو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا جنہوں نے صدر کو بروقت قائل کر کے ملک کو ایک ایسے بحران سے باہر نکال لیا کہ اگر جاری رہتا تو سب کچھ رک جاتا اور خدا جانے آج ہمیں کیا دن دیکھنا پڑتا چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے عشائیے میں ان کی اچانک رونمائی نے وہ خوش خبری سچ کر دکھائی جس کی انہوں نے نوید دی تھی۔ اب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایوان صدر پارٹی کے بزرگ سیاستدانوں اور وزیراعظم کے مشورہ پر ضرور کان دھریں گے۔
ضد اور ہٹ دھرمی سے قوموں کے سفینے ڈوب جاتے ہیں یوں لگتا ہے کہ اب آئندہ اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان افہام و تفہیم اور مشاورت و قانون کے مطابق ہی مسائل کا حل ڈھونڈا جائے گا ایک اچھی مثال جو گیلانی صاحب نے قائم کر دی ہے ضرور رنگ لائے گی اور اس کے اثرات دور دور تک مرتب ہوں گے۔ ہمارے ہاں ایک بڑی وباءیہ پھیلی ہوئی ہے کہ مخالفت برائے مخالفت کرنی ہے حالانکہ حکمرانوں کی باہمی مخالفت صرف قومی مسائل پر ہونی چاہئے ذاتی پرکاش پر نہیں۔ وزیراعظم شروع شروع میں کچھ سوئے سوئے سے لگتے تھے مگر اب وہ جاگے جاگے لگتے ہیں حالات کے سلجھاﺅ میں انہوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ شائد اس خانقاہی نظام کا اعجاز ہے جس کے وہ نمائندہ بھی ہیں وہ عظیم صوفی موسٰی پاک شہید کے سجادہ نشین بھی ہیں اور ملک کے شہ نشین بھی۔
پاکستان کو آج اپنی تمام تر خرابیوں کی درستگی کے لئے ایک دیانتدار عدلیہ کی ضرورت ہے اور یہ دیانت داری ابھی اپنے آغاز ہی میں ہے اگر عدالتیں جرم اور شرکا نوٹس لیتیں رہیں گی اور انصاف کا علم بلند رکھیں گی تو یہ ملک ترقی بھی کر سکتا ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی خود مختاری بھی حاصل کر سکتا ہے اور غیروں کی محتاجی سے بھی نجات حاصل کر سکتا ہے اور اگر حکومت عدلیہ سے وہی کام لے جو وہ پولیس سے لیتی ہے تو یہاں کبھی سدھار نہیں آئے گا بلکہ حالات مزید خراب ہونگے۔ دہشت گردی تو یہ ہے کہ ملک میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکہ نے نا صرف ایک حقیقی جنگ برپا کر رکھی ہے بلکہ ہمارے گھر میں گھس کر اپنی من مانیاں بھی کر رہا ہے اس صورتحال پر بھی وزیراعظم اور ایوان صدر کو توجہ دینی چاہئے بھارت پاکستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ایک طرح سے جنگ کا آغاز کر چکا ہے اس کو گیلانی صاحب اس زبان میں جواب دیں جو زبان ایک دفعہ انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی اختیار کی تھی ہمارا ملک پاکستان مسائلستان بن چکا ہے۔ وزیراعظم کی حالیہ جرات رندانہ سے یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ وہ اپنی حکومت کو اصل قومی مسائل کے حل پر لگا دیں گے۔
ضد اور ہٹ دھرمی سے قوموں کے سفینے ڈوب جاتے ہیں یوں لگتا ہے کہ اب آئندہ اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان افہام و تفہیم اور مشاورت و قانون کے مطابق ہی مسائل کا حل ڈھونڈا جائے گا ایک اچھی مثال جو گیلانی صاحب نے قائم کر دی ہے ضرور رنگ لائے گی اور اس کے اثرات دور دور تک مرتب ہوں گے۔ ہمارے ہاں ایک بڑی وباءیہ پھیلی ہوئی ہے کہ مخالفت برائے مخالفت کرنی ہے حالانکہ حکمرانوں کی باہمی مخالفت صرف قومی مسائل پر ہونی چاہئے ذاتی پرکاش پر نہیں۔ وزیراعظم شروع شروع میں کچھ سوئے سوئے سے لگتے تھے مگر اب وہ جاگے جاگے لگتے ہیں حالات کے سلجھاﺅ میں انہوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ شائد اس خانقاہی نظام کا اعجاز ہے جس کے وہ نمائندہ بھی ہیں وہ عظیم صوفی موسٰی پاک شہید کے سجادہ نشین بھی ہیں اور ملک کے شہ نشین بھی۔
پاکستان کو آج اپنی تمام تر خرابیوں کی درستگی کے لئے ایک دیانتدار عدلیہ کی ضرورت ہے اور یہ دیانت داری ابھی اپنے آغاز ہی میں ہے اگر عدالتیں جرم اور شرکا نوٹس لیتیں رہیں گی اور انصاف کا علم بلند رکھیں گی تو یہ ملک ترقی بھی کر سکتا ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی خود مختاری بھی حاصل کر سکتا ہے اور غیروں کی محتاجی سے بھی نجات حاصل کر سکتا ہے اور اگر حکومت عدلیہ سے وہی کام لے جو وہ پولیس سے لیتی ہے تو یہاں کبھی سدھار نہیں آئے گا بلکہ حالات مزید خراب ہونگے۔ دہشت گردی تو یہ ہے کہ ملک میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکہ نے نا صرف ایک حقیقی جنگ برپا کر رکھی ہے بلکہ ہمارے گھر میں گھس کر اپنی من مانیاں بھی کر رہا ہے اس صورتحال پر بھی وزیراعظم اور ایوان صدر کو توجہ دینی چاہئے بھارت پاکستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ایک طرح سے جنگ کا آغاز کر چکا ہے اس کو گیلانی صاحب اس زبان میں جواب دیں جو زبان ایک دفعہ انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی اختیار کی تھی ہمارا ملک پاکستان مسائلستان بن چکا ہے۔ وزیراعظم کی حالیہ جرات رندانہ سے یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ وہ اپنی حکومت کو اصل قومی مسائل کے حل پر لگا دیں گے۔