بدھ ‘ 9 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 20 فروری2013 ئ

Feb 20, 2013

رحمن ملک کی پارلیمنٹ میں ان کیمرہ بریفنگ مزاحیہ ڈرامہ ہوگا۔بابر اعوانیادش بخیر اگر بابر اعوان صاحب کو یاد ہوکہ وزیر داخلہ رحمن ملک اس سے قبل بھی کئی بار ایسے ڈرامہ کرچکے ہیں اور مزاحیہ ڈراموں میں تو انہیں کمال مہارت حاصل ہے۔کراچی ہویا بلوچستان اور صوبہ خیبر پی کے جہاں بھی امن و امان کی حالت بگڑی یا کوئی المیہ رونما ہوتا ہے۔رحمن ملک صاحب فوری طورپر کسی مزاحیہ ایونٹ کے ہمراہ ان کیمرہ بریفنگ کا انعقاد کرکے حالات کو قابو کرنے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی وہ لاجواب پرفارمنس دیتے ہیں کہ رونے والوں کابھی ” ہاسا“ نکل جاتا ہے۔لگتا ہے صدر صاحب نے انہیں رکھا ہی اسلئے ہے المیہ صورتحال میں بھی طربیہ ماحول پیدا کرلیا ورنہ حقیقت میں.... اے پردہ نشیں ضد ہے کیا چشم تمنا کو تو دفترِ گل میں بھی رسوا نظر آتا ہے ایک ایسا ہی نادر مزاحیہ لائیو ڈرامہ بابر اعوان صاحب خود بھی سپریم کورٹ کی ایک پیشی میں دکھاچکے ہیں جسکا عنوان تھا” نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا“ میڈیا پر اس کی ریکا رڈ توڑ نمائش ہونے کے بعد ان کی یہ ڈرامہ سیریل بند ہوگئی تھی۔٭....٭....٭....٭
 میٹرو گروپ کے بانی افراد میں شامل ارب پتی روٹو بیشہم نے بیماری سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔انکی عمر 89برس تھی سچ کہتے ہیں یہ دنیا ایک میلہ ہے جس میں آناجانا لگا رہتا ہے۔ ارب پتی ہے یا کنگلا سب سے یہاں سے جانا ہے کوئی دولت کے باوجود خودکشی کرتا ہے اور کوئی تنگ دستی کے باعث خود کو ہلاکت میں ڈالتا ہے اور یہ دنیا چلتی رہتی ہے....دنیا ہے موج دریا قطرے کی زندگی کیا آئے تھے ہم اکیلئے جائینگے ہم اکیلےیہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے افسوس ہم نہ ہونگے اب معلوم نہیں روٹو بیشہم نے خودکشی کا کونساطریقہ اختیار کیا۔اسے تو دولت کے سہارے ہر طرح کی سہولت حاصل ہوگی اس کے باوجود اسکی بیماری کا علاج نہ ہونا اس حکم الٰہی کی ابدیت ثابت کرتا ہے کہ ” ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے “ اسلئے کہتے ہیں اچھے لوگ ایسے کام کرجاتے ہیں جس سے لوگوں کو فائدہ ہو تو لوگوں کی دعائیں انہیں آفات و بلیات اور امراض سے بچاتی ہیں۔ایسی موت پرکسی نے کیا خوب کہا.... غریب شہر تو فاقوں سے مرگیا عارف امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی٭....٭....٭....٭
 صدر زرداری لاہور پیلس کا تحفہ لیکر صدارت کے اہل نہیں رہے،کسی مہذب ملک میں اتنا بڑا تحفہ دیا جائے تو ہلچل مچ جاتی: چودھری نثار لگتا ہے چودھری صاحب کو بحریہ ٹاﺅن والے محل المعروف بلاول ہاﺅس کا رشک کچھ زیادہ ہی ہے جو صدر زرداری کو ملا ہے اب جسے انہوں نے قلعہ میں بدل کر مسلم لیگ(ن) کے قلعہ پنجاب کو فتح کرنے کیلئے مورچہ بندی کرلی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ کون کس کا قلعہ سر کرتا ہے۔ایسے میں قائد حزب اختلاف کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ اب کھلے عام کرپشن ہورہی ہے۔حیرت ہے‘ پہلے کیا چودھری نثار آنکھ بند کئے ہوئے تھے کہ انہیں کھلے عام کرپشن نظر نہیں آرہی تھی۔سپریم کورٹ سے لیکر نیب تک عوام سے لیکر خواص تک پورا ملک کھلم کھلا کرپشن کا ماتم کر رہا ہے مگر بھولے چودھری کو آج پتہ چلا۔ اب جواب آں غزل کے طورپر کوئی وفاقی حکومتی کارندہ حکومت پنجاب کے معاملات پر گلفشانی کرے تو کیا خوب مقابلہ شعرو سخن جاری ہوگا۔٭....٭....٭....٭
 محبت کرنے والوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں جدید سائنس نے شاعرانہ خیال کو سچ ثابت کردیا۔امریکہ کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں جدید ریسرچ کرنے والوں کے مطابق جب دو محبت کرنے والے ملتے ہیں تو ان کے دل یکجا ن ہوجاتے ہیں اور وہ ایک ہی تال سے دھڑکتے ہیں اس سے مومن کی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے .... تم میرے پاس ہوتے ہو گویاجب کوئی دوسرا نہیں ہوتا یہی محبت کی انتہا ہے جب دوئی کا تصور مٹ جاتا ہے ‘دل و دماغ اور روح یکجان ہوجاتے ہیں اس ہم آہنگی کو صدیوں سے شاعر بیان کرتے آرہے ہیں۔فارسی میں کہاجاتا ہے ....من تو شدم تو من شدیمن تن شدم تو جان شدی یہی محبت جب عشق مجازی سے عشق حقیقی کا روپ دھارلیتی ہے تو فلسفہ وحدت الوجود جنم لیتا ہے جہاں کسی دوسرے کا تصور ہی نہیں ہوتا اورزمین و آسمان میں ہر جگہ وہی نظر آتا ہے۔اور یہی کسی صوفی کیلئے تکمیل ذات کا یا عرفان ذات کا درجہ ہوتا ہے۔٭....٭....٭....٭
ارجنٹائن میں ایک ایسی کتاب شائع ہوئی ہے جس کے حروف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹنا شروع ہو جاتے ہیں‘ اس طرح دو ماہ میں کتاب کے صفحات خالی رہ جاتے ہیں۔ پہلے تو سنتے تھے کہ کند ذہن کا دماغ لاکھ پڑھنے لکھنے کے باوجود کورا ہی رہتا ہے‘ اب تو ایسی کتاب کے مارکیٹ میں آنے سے تو ایجادات کی نئی دنیا کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ کہاں گیا وہ زمانہ کہ جب لوگ کہتے تھے....احتیاطوں کا یہ عالم توبہخط بھی بھیجے گئے سادہ مجھ کو کاش! اب بھی وہی دور ہوتا تو لکھنے والے بے خوف خطر خط میں حال دل بیان کرتے جو کچھ ہی دنوں میں محو ہو جاتے اور کسی کو راز کا افشا ہونے کا خوف بھی نہ ہوتا۔ یوں بے حساب و کتاب خط و کتابت ہوتی اور بے چارے خسارے کے مارے محکمہ ڈاک خانے کا بھی بھلا ہو جاتا وہ بھی دو چار پیسے کما لیتا۔ 

مزیدخبریں