کارگل سازش.... وجوہات واقعات اور الزامات

کارگل سازش کا فوری ہدف نواز شریف کو زیرو اور پرویز مشرف کو فوج اور عوام میں ہیرو بنانا تھا۔ نواز شریف کا جرم پاکستان کی جوہری قوت کا اعلان (یوم تکبیر) تھا۔ امریکی صدر نے نواز شریف کو جوہری دھماکوں سے روکنے کے لئے کئی بار براہ راست فون کئے، دھمکی، دباﺅ اور لالچ سے کام لیا۔ مگر نواز شریف باز نہ آئے۔ درایں دور نواز شریف (ہیوی مینڈیٹ) بھاری جمہوری اکثریت کے باعث پاکستان کے طاقتور ترین حکمران تھے۔ ان کا دوسرا جرم باریش چیف جسٹس رفیق تارڑ کو پاکستان کا صدر بنانا تھا۔ نیز وہ پاکستان میں قرآن و سنت پر مبنی شرعی جمہوریت (شریعت بل) کے لئے بنیادی قانون سازی میں بھی مصروف تھے۔ مذکورہ بالا امور نے نواز شریف کے خلاف بیرونی اور اندرونی سیکولر قوتوں کو اپنے مذموم عزائم کے لئے متحد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ مگر پاکستان کی اندرونی سیکولر اور لبرل قوتیں امریکی و عالمی اتحادی سرپرستی کے باوجود بے بس تھیں۔ کیونکہ نواز شریف کی عوامی مقبولیت اور طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا تھا کہ عوام نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالتی زیادتی کے خلاف نواز انتظامیہ کا ساتھ دیا۔
کارگل اور 9/11ڈرامے میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا مرکزی محاذ پاکستان اور کردار جنرل پرویز مشرف ہے۔ کارگل سازش سٹیج کی حتمی تیاری تھی۔ اگر پرویزی انقلاب 12.10.99نہ ہوتا تو آج خطے کے حالات اور واقعات مختلف ہوتے۔ امریکہ نے پرویز مشرف کے ذریعے پاکستان کو ہائی جیک کیا تھا جو تاحال واگزار نہیں ہوا۔ ہائی جیکر ہمیشہ جہاز کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں۔ 30منٹ کی تیاری کے ساتھ انقلاب نہیں آتا۔ پرویزی انقلاب کی تیاری بہت پہلے کی گئی تھی۔ کارگل پرویزی انقلاب کی خشت اول ہے جس کی چند وجوہات اور اثرات ہیں۔ امریکہ کو نئی ورلڈ آرڈر پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مجاہد اسلام بالخصوص پاک افغانستان مجاہدین کے خلاف دہشت گردی کی کھلی جنگ کا آغاز کرنا تھا۔ جس کے لئے پاکستان میں معتمد ترین امریکی ہمنوا حکمران درکار تھا۔ جو پرویزی انقلاب کے بغیر ناممکن تھا۔افغانستان میں مجاہد طالبان حکومت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی تھی۔ انہوں نے ملی وحدت اور قومی اخوت کی بنیاد پر امن و امان عدل و انصاف اور سیاسی استحکام قائم کر دیا تھا۔ امریکہ مجاہد طالبان کو اپنا باغی اور مغربی تہذیب و تمدن کا دشمن کہتا تھا۔ پاکستان کی نواز انتظامیہ مجاہد طالبان کی دوست اور ہمدرد تھی۔ نیز نواز شریف امریکہ کے بے دام ہمنوا بھی نہیں تھے جبکہ تاریخی جغرافیائی اور روائتی لحاظ سے کابل کا سب سے بڑا دفاعی مورچہ پاکستان ہے۔ اور امریکہ کی پاکستان اور افغانستان سے ناراضی پاگل پن کی حد تک بڑھ گئی تھی۔
امریکہ نواز شریف کو چاغی پالیسی کی سزا دینا چاہتا تھا جس کے لئے پہلی مشترکہ کوشش چیف جسٹس سجاد علی شاہ، آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور پی پی پی کے پاکستانی صدر فاروق لغاری کے ذریعے کی گئی جو ناکام رہی۔ اس سازش کی کامیابی کے لئے امریکہ کا فرستادہ ایجنٹ یوسف ہارون سجاد علی شاہ کا تقریباً ڈیڑھ ماہ مہمان رہا۔ امریکہ نے نئے وزیراعظم فخر امام کے لئے خفیہ طور پر رائے شماری کا بندوبست بھی کر لیا تھا۔ مذکورہ خبریں اس دور کے اخبارات میں چھپی ہوئی ہیں۔ نوازشریف کی اپنے والد گرامی میاں محمد شریف جیسی خوش بختی کام آئی اور امریکہ کی مذکورہ کوشش ناکام ہوئی اس طرح مجاہد طالبان کو افغانستان میں استحکام کے لئے مزید ڈیڑھ دو سال مل گئے۔ مگر اگلی بار تبدیلی اور سازش کے تانے بانے نواز شریف کی ”کچن کیبنٹ کے ذریعے بنے۔ ”کچن کیبنٹ“ میں مشاہد حسین سید اور چودھری نثار تھے۔ جن کی سفارش پر رنگیلے پرویز مشرف کو نیا آرمی چیف بنایا۔ جبکہ امریکہ نے جنرل جہانگیر کرامت کو ریٹائرمنٹ کے ایک ہفتہ بعد جنوبی ایشیاءکا دفاعی مشیر رکھ لیا۔ امریکہ کی مذکورہ وزارت مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد کی سربراہی میں کام کرتی ہے۔
کارگل سازش کیوں اور کیسے کی گئی۔ کارگل سازش بظاہر پیشہ ورانہ مہارت سے عمل میں لائی گئی تھی۔ اس سازش کا کچھا چٹھا جنرل شاہد عزیز نے کھول دیا جو اس وقت ISIکے تجزیاتی شعبے کے سربراہ تھے۔ کارگل آپریشن کے تحت 5ہزار جوان پاک بھارت عالمی سرحد عبور کر کے 11 کلو میٹر بھارتی علاقے میں داخل ہوئے۔ یہ جوان ناردرن لائٹ انفنٹری کے تھے۔ جنہیں ”مجاہدین“ کا نام دیا گیا۔ اس دوران پرویز مشرف نے ایک رات بھی بھارتی علاقے میں مذکورہ مجاہدین کے ساتھ گزاری۔ جبکہ کارگل کی مذکورہ چوٹیوں پر آنے جانے اور سپلائی کا ایک ہی ذریعہ تھا۔ جس پر پرویز مشرف کا دو ہفتہ قبضہ رہا۔ جبکہ دو ہفتے بھارتی فوج اور حکومت کیسے ”لاعلم اور غافل“ رہی۔ بعد ازاں بھارت نے 2لاکھ فوج بھیجی۔ ائر فورس کا بھرپور استعمال کیا گیا اور عالمی سطح پر نان سٹیٹ ہولڈرزیعنی مجاہدین کے خلاف عالمی دہشت گردی کی جنگ کی بنیاد رکھی گئی۔ کارگل آپریشن پاک بھارت امریکی ایجنٹوں کی کارروائی تھی جس میں ناردرن لائٹ انفنٹری کے نام نہاد مجاہدین کو فضائی تحفظ دینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ جس کے باعث پاکستان کا سخت جانی نقصان ہوا۔ جب کارگل آپریشن عالمی سطح پر تنقید کا ہدف بنا تو پاکستان کے 5ہزار جوان موت کے شکنجے میں تھے۔ اس وقت فوج یعنی جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو حقیقی حالات سے آگاہ کیا۔ اور باقی ماندہ فوجی جوانوں کو بچانے کے لئے امریکی ثالثی کا مشورہ دیا۔ نواز شریف نے فوجی جوانوں کے ساتھ بے لوث محبت اور وفاداری کے تحت امریکہ کا دورہ کیا اور اس طرح عوام کا سر ”چاغی ہیرو کارگل میں امریکہ کے سامنے جھک کر عوامی زیرو ہو گیا۔ کارگل آپریشن کی رازداری، ضرورت یعنی اغراض و مقاصد اور حقیقی تفصیلات سے نواز شریف کو لاعلم رکھا گیا۔ نواز شریف کو ”مرضی کی محدود معلومات سے آگاہ کیا گیا جبکہ اس وقت سیکرٹری دفاع چودھری نثار علی خان کے بھائی جنرل (ر) افتخار علی خان تھے۔ استاد گرامی پروفیسر محمد منور نے نواز شریف کی مذکورہ امریکہ یاترا کے بارے میں رائے دی تھی کہ نواز شریف امریکی دام میں پھنس گئے ہیں۔ امریکہ کونواز شریف کی سیاسی پرواز کا اندازہ ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب ان کے پر کاٹنا آسان ہو جائے گا۔
فی الحقیت کارگل سازش پرویز مشرف کو اقتدار میں لانے کا امریکی و بھارتی زینہ تھا جس کے بعد بہادر کمانڈو جرنیل نے امریکی دھمکی کے سامنے (9/11 کے بعد) ”غیر مشروط“ اور غیر تحریری تعاون“ کی پالیسی اپنائی۔ پاکستان میں غیرشریف احباب اور احزاب کو متحد اور منظم کیا۔ افغانستان میں مجاہد طالبان حکومت کو ختم کرایا نیز افغانستان میں امریکہ و بھارت کی کرزئی حکومت بنوائی۔ کشمیر کو خود مختار قادیانی ریاست بنانے کے لئے تھرڈ آپشن کا شوشہ چھوڑا۔ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کے نام پر پاکستان میں امریکی آپریشنل نیٹ ورک مکمل کرایا اور اس طرح امریکہ و بھارت پاک افغان خطے کی اہم طاقت بن گئے اور مجاہدین اسلام امریکی ریڈ انڈینز کی طرح در بدر اور بے بس ہو کر رہ گئے۔ جب تک کارگل سازش کی مجرموں اور ان کے سیاسی و عسکری معاونوں کا احتساب نہیں ہوتا اس کی بازگشت خطے میں منفی اثرات مرتب کرتی رہے گی۔

ای پیپر دی نیشن