مکرمی! حکیم محمد موسیٰ امرتسری (مرحوم) ایک محقق، حصولِ علم کے متلاشی، طالب علموں کے گائڈ، سچے مسلمان ، مخیر اور علم دوست انسان تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں گوشہ حکیم موسیٰ ان کے اخلاص کے جہتوں کی کی زندہ دلیل ہے۔ حکیم محمد موسیٰ کے مطب میں میری ان سے متعدد ملاقاتیں رہی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران پروفیسر طاہر القادری کا بھی ذکر ہو جاتا۔ راجا رشید محمود صاحب (ایڈیٹر رسالہ نعت) نے حکیم محمد موسیٰ پر مضمون لکھا۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا ”پروفیسر محمد طاہر اقادری کو بنانے اور اٹھانے میں جوکشٹ اٹھائے، پاپڑ بیلے وہ جاننے والوں کے لئے پوشیدہ نہیں۔ پروفیسر قادری خود بیمار ہوتے سائیکل پر بٹھا کر حکیم موسیٰ کے پاس لے جاتا اور وہاں دوا مفت ملتی تھی۔ ڈاکٹر محمد علی نے اپنے گھر واقع شادمان درسِ قرآن شروع کرنا چاہا تو حکیم موسیٰ نے پروفیسر طاہر القادری کو موزوں قرار دیا اور ہفتہ وار درس شروع ہوا۔ اور وہیں ادارہ منہاج القرآن بنا۔ محمد طاہر القادری نے بغیر پوچھے پہلے تعارف نامہ مجلس عاملہ اور شوریٰ میں حکیم صاحب اور میرا نام شامل کر دیا جس پر ہم دونوں نے سخت احتجاج کیا تو آئندہ کے لئے انہوں نے توبہ کر لی پھر پتا نہیں کس کس کام سے توبہ کر لی؟ اور آج کل تو سیاست نے انہیں ہر کام سے بیگانہ کر دیا ہے۔ان دنوں طاہر القادری صاحب اخبارات اور چینلز میں چھائے ہوئے ہیں اس لئے قادری صاحب کے بارے میں ایک پرانی بات یاد آ گئی۔ حکیم محمد موسیٰ امرتسری نے بہت سے لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا، پتا نہیں کس کس کو ان کا کون سا سلوک یاد رہتا ہے؟ (محمد حنیف 31 ہیرن روڈ لاہور)