لاہور (اشرف جاوید/ دی نیشن رپورٹ) کئی سال گزر گئے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے اور اربوں کا نقصان ہوا مگر سیاسی قیادت اس نیوکلیئر پاور والے ملک کو درپیش کالعدم عسکریت پسند تنظیموں سے درپیش خطرات کو سنجیدگی کے ساتھ محسوس کرنے میں ناکام رہی۔ انٹیلی جنس و سکیورٹی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابق اور مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت گزشتہ 6 سال سے انتہا پسندی روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی بجائے محض پوائنٹ سکورنگ میں مصروف رہی، اگرچہ فیئر ٹرائل بل اور تحفظ پاکستان آرڈیننس جیسے قوانین سامنے لائے گئے تاہم اس پر ضروری قانون سازی نہیں کی گئی۔ گزشتہ عشرہ میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، تحریک جعفریہ سمیت 31 عسکریت پسند تنظیمیں وجود میں آئیں اور ان پر پابندی لگائی گئی مگر حکام ان کی سرگرمیوں پر خاطر خواہ نظر نہ رکھ سکے۔ ایس ایس پی، تحریک جعفریہ، لشکر طیبہ ابھی تک نئے ناموں سے کام کر رہی ہیں۔ اس کی بازگشت گزشتہ روز قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی میں سنائی دی۔ اگر سیاسی قیادت ان کے انسداد کیلئے کوئی مختصر، درمیانی اور طویل حکمت عملی اختیار کرتی تو صورتحال بہتر ہو جاتی۔ 2002ء سے اب تک 387 خودکش حملوں میں 5964 افراد مارے گئے، 12379 زخمی ہوئے۔ 5590 سکیورٹی اہلکاروں، 18,454 شہریوں سمیت 51,053 افراد مارے گئے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واشنگٹن میں ایک سیمینار کے دوران کہا کہ عسکریت پسندی ملک کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اب تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات قریباً ختم ہیں اور ماہرین نے دہشت گردی کے واقعات بڑھنے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ آئی بی کے ایک سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ بعض سیاستدان حتیٰ کہ عمران خان بھی ان معاملات پر سیاست کر رہے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق سیاسی رہنمائوں کو اس پر سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر حوالوں سے نہ صرف مسلح افواج کی تذلیل ہو گی بلکہ اس سے طالبان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔