استنبول میں بکھری تاریخ کی راکھ

استنبول میں میڈیا گروپ کے دورے سے فارغ ہوئے تو ہماری منزل حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کی مسجد تھی۔ یہ مسجد شاخ زریں (گولڈن ہارن) کے قریب قدیم شہر قسطنطنیہ کی فصیلوں کے باہر واقع ہے۔ یہ مسجد قسطنطنیہ کی فتح کے بعد 1458ء میں سلطان محمد فاتح کے حکم پر تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد عین اُس جگہ تعمیر کی گئی جہاں صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ 670ء میں محاصرہ قسطنطنیہ کے دوران زخمی ہونے کے بعد شہید ہو گئے تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار ترکوں کیلئے تو انتہائی مقدس اور پُر عقیدت مقام تو ہے ہی لیکن دنیا بھر سے آنیوالے مسلمانوں کیلئے بھی زیارت اور عقیدت کا پہلا مقام قرار پاتا ہے۔مسجد کے احاطے کے داخلی دروازے کے بائیں طرف میزبان رسولﷺ کا روضہ ہے۔ روضے کی زیارت اور فاتحہ خوانی کی سعادت یقینا ہماری زندگی کی ایک بہت بڑی سعادت تھی۔یہاں سے نکلے تو سلطان محمد فاتحؒ کا مزار اور مسجد ہمارے سامنے تھی۔ یہ مسجد استنبول میں ترک اسلامی طرز تعمیر کا ایک اہم نمونہ ہے ، یہ مسجد بھی فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح کے حکم پر تعمیر کی گئی اور فتح قسطنطنیہ کے بعد تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد تھی۔ مسجد کی اصلی عمارت انتہائی منصوبہ بندی سے تیار کی گئی عمارات کا مجموعہ تھی۔ اِن میں آٹھ مدارس، کتب خانہ، شفا خانہ، مسافر خانہ، کاروان سرائے، بازار، حمام، ابتدائی مدرسہ اور لنگر خانہ موجود تھے۔ سلطان محمد فاتحؒ کی تعمیر کردہ اصل مسجد تو1509ء کے زلزلے میں بری طرح متاثر ہوئی جس کے بعد اسے مرمت کے مراحل سے گزارا گیا۔ 1557ء اور 1754ء کے زلزلوں نے ایک مرتبہ پھر مسجد کو متاثر کیا اور دوبارہ اسکی مرمت کی گئی۔ لیکن 22 مئی 1766ء کو آنیوالے زلزلے میں یہ مسجد مکمل طور پر تباہ ہو گئی، اس کا مرکزی گنبد گر گیا اور دیواروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مسجد کی موجودہ عمارت سلطان مصطفی ثالث کے حکم پر 1771ء میں تعمیر کی گئی جو قدیم مسجد سے بالکل مختلف انداز میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کا صحن، مرکزی داخلی دروازہ اور میناروں کے نچلے حصے ہی اولین تعمیرات کا حصہ ہیں جن پر 1771ء میں دوبارہ مسجد تعمیر کی گئی۔مسجد کے باغ میں سلطان محمد فاتح اور انکی اہلیہ گل بہار خاتون کے مزار ہیں۔ اِن دونوں کے علاوہ مسجد کے احاطے میں سلطان محمد فاتح کی والدہ نقشِ دل سلطانہ کی قبر بھی موجود ہے ۔مقابر پر فاتحہ خوانی کے بعد ہماری اگلی منزل سلطان احمد مسجد المعروف نیلی مسجد تھی۔ بنیادی طور پر ترکی کی تمام تاریخی مساجد کی طرزِ تعمیر اور ڈیزائن ایک جیسا ہے لیکن سلطان احمد مسجد کو بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جسکے چھ مینار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر جب سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد الحرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی لیکن کیونکہ مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اس لیے مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ مسجد الحرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اُسکے میناروں کی تعداد سات کر دی گئی۔ مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جنکے وسط میں مرکزی گنبد واقع ہے ، مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو ہاتھوں سے تیار کردہ 20 ہزار ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے، مسجد کی بالائی دیواروں اور چھت پر گنبد کے اندرونی حصوں کو رنگ و روغن، آیات مبارکہ اور خوبصورت نقش ونگار کیساتھ مزین کیا گیا ہے۔مسجد میں قدرتی روشنی اور ہواکے گزر کیلئے شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں۔مسجد کی طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ رات کے وقت رنگین برقی قمقمے اس عظیم مسجد کے جاہ و جلال میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ مسجداحمد سلطان سے نکلے تو سلاطین عثمانیہ کا توپ قاپی محل ہمارا منتظر تھا۔ توپ قاپی میں یوں تو دیکھنے کو بہت کچھ تھالیکن سب سے اہم چیز وہ تبرکات اور نوادرات تھے، جنہیں دیکھنے کی خواہش ہر مسلمان کی ہوتی ہے۔ ان نوادرات میں سب سے اہم نوادرات کا تعلق اسلام کے ابتدائی دور سے ہے، ان نوادرات میں سے چند ایک تو آقائے دو جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہزاروں سال پہلے کے بھی ہیں،جن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا عمامہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور دیگر انبیاء کرام کے استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ ان نوادرات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ، تلوار، دانت مبارک ، ریش مبارک کے بال ، جبہ، تیر،کمان ،مہر اور پاؤں کا نشان بھی موجود ہیں، جنہیں دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون ملتا ہے۔ اس عمارت میں ایک حصہ تلواروں کیلئے مخصوص ہے ، جن میںتمام خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی تلواریں زیارت کیلئے رکھی ہیں، اس خاص کمرے کے تقدس کا عالم یہ تھا کہ سلطان اور انکے اہل خانہ کو بھی سال میں صرف ایک بار 15 رمضان کو اس کمرے میں جانے کی اجازت تھی۔ اسکے علاوہ عثمانی دور کی تمام یادگاریں بشمول عثمانی سلاطین کی تصاویر، انکے ہتھیار، استعمال شدہ اشیائ، خزانے، زیورات، نوادرات، تاج و تخت اور اس طرح کی دیگر نادر و نایاب اشیاء بھی یہاں موجود ہیں۔ترک سلاطین نے دنیا کے کونے کونے سے نوادرات اکٹھے کرکے انہیں اپنے محلات کی زینت بنایا۔ آج یہی نوادرات اس عجائب گھر میں موجود ہیں۔ زیادہ تر نوادرات مصر سے اُس وقت لائے گئے جب ترک سلطان سلیم خان نے تمام مشرق وسطیٰ کو فتح کیا۔
قارئین کرام! جو قومیں اپنی تاریخ سے پیار نہیں کرتیں، وہ مستقبل میں آگے بڑھنے کی صورت گری بھی نہیں کرسکتیں۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد گزشتہ ایک صدی میں بے شک ترکی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، حکمران بدلے، جغرافیہ متغیر ہوا اور نظام بھی تبدیل ہوئے لیکن ترکوں نے اپنے ماضی سے محبت کرنا ترک نہیں کیا۔ اپنے ماضی سے ترکوں کی یہ محبت ہمیں ’’پینوراما 1453میوزیم‘‘ میں بھی نظر آئی۔ یہ پینواراما میوزیم دراصل قسطنطنیہ کی فتح کا منظر نامہ ہے۔ یہ ایک طرح سے لاہور کے ’’پی آئی اے پلینی ٹوریم‘‘سے ملتا جلتاتو ہے لیکن اِس سے خاصہ بڑا ہے۔ اس پینوراما میوزیم میں دکھایا گیا ہے کہ سلطان محمد فاتح کی فوج نے کس طرح قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ قسطنطنیہ کی فتح کے دوران استعمال کی جانیوالی توپیں، منجنیق، گولہ و بارود اور دیگر اسلحہ بھی نمائش کیلئے رکھا گیا ہے۔ عثمانی سلاطین کی نجی زندگی کو ایک طرف رکھ دیں تو اُنکی حکمت عملی، دانشمندی اور امور حکومت میں قابلیت کی داد دینی پڑتی ہے۔ اپنے عروج پر سلطنت عثمانیہ، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے وسیع علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی، یورپ کے کچھ ملک یا تو اس سلطنت کا حصہ تھے اور یا باجگزار تھے لیکن عاقبت نااندیشیوں اور باہمی ریشہ دوانیوں کے سبب سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا تو اُس کی کوکھ سے تین درجن کے لگ بھگ ملکوں اور ریاستوں نے جنم لیا، دو درجن ممالک ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی دولت اور خزانہ آج ترکی سے دس دس گنازیادہ بڑا ہے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ سدا بادشاہی اللہ کی ہے اور تاریخ کا یہ سبق استنبول میںبکھری تاریخ کی راکھ میں جابجا دیکھا جاسکتا ہے۔ 

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...