انتہا پسندی کا جہاد سے کوئی تعلق نہیں: فضل الرحمن خلیل

لاہور (فرزانہ چودھری/ میگزین رپورٹ) انتہا پسندی کا جہاد سے کوئی تعلق نہیں۔ افغان قوم کو جنگ سکھانا ایسے ہی ہے جیسے شاگرد استاد کو کوئی سبق سکھائے۔ افغان کمانڈوز کو دیکھیں ان میں سے کئی کی ٹانگیں نہیں کسی کا بازو اور آنکھ نہیں ہے۔ ملا عمر کی بھی ایک آنکھ نہیں تھی۔ وہ پوری جنگ کی قیادت کرتا رہا ملا فضل اور ملا دائود اللہ کی ٹانگ نہیں وہ لکڑی کی ٹانگیں لگا کر میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ تربیت یافتہ فوجی ان کے ہاتھوں شکست کھا رہے ہیں۔ افغانی منان کوچے نے ایک وقت میں روس کے 26 طیارے گرائے۔ ان کی میت کو روسی طیاروں نے ان کی جرأت اور شجاعت کی سلامی دی یہ باتیں الانصار الامہ کے بانی شام اور برما کے مظلوم عوام کیلئے علم بلند کرنے والے اور طالبان مذاکرات کے نمایاں کردار مولانا فضل الرحمن خلیل نے سنڈے میگزین کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیں۔ انہوں نے کہا افغان قوم کا مزاج ہے کہ پیار سے ان کی گردن اتاریں مگر جبر سے آپ ان کی گردن کو اتار سکتے ہیں لیکن اس کو جھکا نہیں سکتے۔ افغان جہاد کیلئے تربیت کے سلسلہ میں امریکہ نے زیادہ دلچسپی لی۔ افغان جہاد کے ابتدائی دو چار سالوں میں امریکہ اور پاکستان کے کور کمانڈوز نے افغان مجاہدین کو تربیت دی تھی۔ مگر آج جو 18 سال کا افغان نوجوان امریکہ اور نیٹو فورس کے خلاف لڑ رہا ہے اس کو تو کسی نے تربیت نہیں دی۔ افغان اپنے روایتی انداز میں جنگ لڑتے ہیں۔ ملا عمر نے امریکہ کے خلاف جنگ کا جو طریقہ کار اختیار کیا آخر کار امریکہ نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ حال ہی میں قندوز کی فتح کو دیکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان جہاد پر جرمن صحافی ولسن نے کتاب ’’خدا کو افغانستان میں دیکھا‘‘ لکھی اور مسلمان ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمن خلیل کے تفصیلی انٹرویو کی پہلی قسط 21 فروری کے سنڈے میگزین میں شائع ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...