مَیں نے 19 فروری کی شب خواب میں دیکھا کہ مَیں بابا ٹلّ کے وسیع و عریض اور خوبصورت ڈرائنگ روم کے ایک سِنگل صوفے پر بیٹھا ہُوں۔ میرے سامنے ایک بڑے صوبے پر بابا ٹلّ اور علاّمہ طاہر اُلقادری اور ایک سنگل صوفے پر بھارت کی سینئر فلمی اداکارہ شرمیلا ٹیگور۔ شرمیلا ٹیگور اِن دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں ۔ یہ خبر تو مَیں نے پڑھ لی تھی اور اُن کا یہ بیان بھی پڑھا کہ ’’ پاکستان فن کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے ‘‘۔ مَیں اپنے اپنے شعبے کی تین اہم شخصیات کو ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہُوا۔ بابا ٹلّ نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا ’’اثر چوہان صاحب! مَیں آپ کی حیرانی دُور کئے دیتا ہُوں۔ آج شام (19 فروری کو ) میرے لڑکپن کے جھنگوی دوست علاّمہ طاہر اُلقادری کی 65 ویں سالگرہ تھی ۔ شرمیلا ٹیگور صاحبہ بھی مدّعو تھیں ۔ میری درخواست پر یہ دونوں یہاں تشریف لے آئے ۔ مَیں نے سوچا کہ؎
’’تینوں فن کار ہیں تو کیوں؟ اِتنے حجابوں میں مِلیں‘‘
مَیں۔ لیکن بابا ٹلّ جی! اب بھی علاّمہ طاہر اُلقادری کی سالگرہ ؟۔
بابا ٹلّ۔ ’’ اثر چوہان صاحب ! آپ نے 19 فروری 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں ’’علاّمہ القادری کی آخری سالگرہ‘‘ کے عنوان سے کالم لِکھا تھا ۔ کہ ’’علاّمہ القادری آج ( 19 فروری 2013ء ) کو اللہ کو پیارے ہو جائیں گے‘‘۔ وہ غلط ثابت ہوگیا ۔ ماشاء اللہ علاّمہ القادری زندہ و سلامت ہیں اور اِن کے عقیدت مندوں نے آج ان کی 65 ویں سالگرہ منائی ہے ‘‘۔
علاّمہ القادری۔ ’’بابا ٹلّ جی! بعض صحافیوں کو جھوٹ لِکھنے کی عادت ہوتی ہے ‘‘۔
مَیں۔ علاّمہ صاحب! آپ مجھ سے بات کریں!۔ آپ نے 1993ء میں اپنا یہ بیان چھپوایا تھا کہ ’’ مجھے سرورِ کائناتؐ نے میرے خواب میں آ کر بشارت دی ہے کہ ۔ ’’ اے طاہر اُلقادری! میری طرح تمہاری بھی عُمر 63 سال ہوگی‘‘۔ اگر آپ کا خواب سچّا تھا تو آپ کو 63 سال کی عُمر میں 19 فروری 2013ء کو اگلے جہان سدھار جانا چاہیے تھا؟۔
شرمیلا ٹیگور۔ ’’ مَیں بیچ میں ٹوکنے کے لئے شما چاہتی ہُوں۔ مَیں پاکستان یاترا پر طاہر اُلقادری جی کے درشن کے لئے آئی ہُوں۔ دھنیہ بھاگ کہ مَیں دَیوتا سمان نیتا کی بھارت یاترا کا پربندھ کرنے کے لئے پاکستان پدھاری ہُوں‘‘۔
مَیں۔ لیکن شرمیلا جی! مَیں چاہتا ہُوں کہ طاہر اُلقادری جی اپنے زندہ سلامت ہونے کی خود وضاحت کریں؟۔
بابا ٹلّ۔ (علاّمہ القادری سے مخاطب ہو کر ) ’’ یار طاہر اُلقادری ! تم یہ کیوں نہیں بتا دیتے کہ ’’ رسولِ پاکؐ نے تمہاری عُمر میں توسیع کردی ہے؟‘‘۔
علاّمہ القادری۔ "No Comments"
شرمیلا ٹیگور۔ ’’ اثر چوہان جی! ہمارے دیش میں جب کوئی مہان نیتا "No Comments"کہہ دے تو کوئی پتّر کار اُس سے کوئی انیہ پرشن نہیں پوچھتا‘‘۔
مَیں شرمیلا جی! آپ فلمی کلاکار ہیں اور علاّمہ القادری مذہبی اور سیاسی لیڈر، پھر آپ اِن کی سالگرہ پر تشریف لائیں اور اِن کے دورۂ بھارت کا بندوبست بھی کرنا چاہتی ہیں ؟۔
شرمیلا ٹیگور۔ ’’ طاہر اُلقادری جی بھی بھارت اور پاکستان کے نیتائوں کی طرح ایک کلاکار اور مَیں کلا اور کلا کار کی پجارن‘‘۔
بابا ٹلّ ’’شرمیلا جی! پُرانے ہندوستان میں ایک شاعر تھے اُستاد ابراہیم ذوقؔ ۔ اگر آپ اجازت دیں تو مَیں اُن کا ایک شعر عرض کروں؟‘‘۔
شرمیلا ٹیگور۔ ’’ آگیا ہے!‘‘
بابا ٹلّ؎
’’ قِسمت سے ہی لا چار ہُوں اے ذوق وگرنہ
سب فن میں ہُوں مَیں طاق مجھے کیا نہیں آتا‘‘
علاّمہ القادری ۔ (طیش میں آکر ) بابا ٹلّ! تم میرے لڑکپن کے بے تکلف دوست ہو لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ تم مجھے ’’ قِسمت سے لا چار‘‘ مشہور کرنا شروع کردو!۔ میں خلوصِ دل سے پاکستان کے غریبوں کے حق میں انقلاب لانا چاہتا ہُوں لیکن غریب لوگ ہی میرا ساتھ نہ دیں تو قِسمت سے لاچار تو وہ ہُوئے؟۔ شرمیلا ٹیگور جی بھارت میں میری بہت بڑی سپورٹر ہیں ۔ تُم انہیں الٹی پٹّی پڑھانے کی کوشش نہ کرو!‘‘۔
مَیں ۔ علاّمہ القادری ! پاکستان کے غریب لوگ تو آپ کا ساتھ دینے کو تیار تھے لیکن آپ پاکستان کے چند روزہ دورے پر تشریف لاتے ہیں اور واپس کینیڈا چلے جاتے ہیں؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’دراصل اثر چوہان صاحب! میرے اِس دوست کو کینیڈا سمیت 90 ملکوں میں کاروبار سیاست چلانا ہوتا ہے اور اپنی ’’ شیخ الاسلامی‘‘ کو بھی ۔ یہ سوچتے ہوں گے کہ پاکستان میں انقلاب نہیں آتا تو نہ آئے ۔ کھاوے خصماں نُوں!‘‘
علاّمہ القادری۔ دیکھو بابا ٹلّ ٹلّ! یا جو بھی تمہارا نام ہے ۔ انقلاب کا کوئی خصم نہیں ہوتا ، انقلاب تو خود جعلی جمہوریت کا خصم ہوتا ہے!‘‘
شرمیلا ٹیگور۔ ’’ علاّمہ القادری جی یہ خصم کیا ہوتا ہے ؟‘‘
بابا ٹلّ۔ ’’اثر چوہان صاحب بتائیں گے!‘‘
مَیں ۔ ’’خصم کو ہندی میں پتی پرمیشور کہتے ہیں اور اُردو میں مجازی خُدا‘‘
شرمیلا ٹیگور۔ ’’ مَیں تو اپنے پتی پرمیشور نواب منصور علی خان پٹودی کی داسی ہُوں ، پتی ورتا‘‘
بابا ٹلّ۔ ’’ کاش انقلاب کی بھی کوئی پتی ورتا داسی ہوتی اور مَیں اُس کے چرنوں میں شردھا کے پھول چڑھا کر اُس سے کہتا کہ اے دیوی! اپنے پتی پرمیشور کو سفارش کردے کہ وہ میرے دوست علاّمہ القادری کی عِزّت رکھنے کے ، کچھ دِنوں کے لئے غریبوں کے پاکستان میں بھی آ جائے ۔ میرا خیال ہے کہ علاّمہ القادری بھی اگر ؎
’’ تُو مجھ سے خفا ہے تو غریبوں کے لئے آ‘‘
کاوِرد کریں تو شاید بات بن جائے؟‘‘۔
علاّمہ القادری ’’ بابا ٹل! مَیں شیخ الاسلام ہوں، وِرد، جاپ یا منتر پڑھنے والا جوگی یا فقیر نہیں ہُوں۔ اگر مَیں انقلاب دشمن عناصر کو بُرا بھلا کہہ کر اور اُن سے میثاقِ جمہوریت 2 نمبر یا 3 نمبر کر کے کینیڈا واپس چلا جاتا ہُوں تو اِس کا یہ مطلب نہ لِیا جائے کہ مَیں کوئی کمزور شخص ہُوں۔ مَیں جب چاہوں انقلاب کو کان سے پکڑ کر پاکستان کے غریبوں کے گھروں اورجھگیوں میں گُھما پھرا سکتا ہُوں‘‘۔
بابا ٹلّ۔ ’’برادرِ عزیز! اگر آپ واقعی کسی دِن انقلاب کو کان سے پکڑ کر اُسے غریبوں کے گھروں اور اُن کی جھگیوں میں گُھمانے پھرانے کے قابل ہو جائیں تو مجھے بھی چند دِنوں کے لئے انقلاب ’’ قرضِ حسنہ‘‘ کے طور پر دے دیں ، مَیں اُس پر سوار ہو کر اور اپنا ٹلّ بجاتے ہُوئے جمہوریت کے سب علمبردار تمام بڑے لیڈروں کی کوٹھیوں پر جا کر کہوں گا کہ دیکھو! یہ علاّمہ طاہر اُلقادری کا انقلاب ، جِس پر مَیں سوار ہُوں!‘‘۔
علاّمہ القادری۔ ’’ بابا ٹلّ ! جو کچھ لڑکپن میں تُم اور مَیں جھنگ میں کرتے رہے ہیں ۔ اب وہ نہیں ہوسکتا ۔ تم میرے ہم عُمر ہو ۔ اب تو سنجیدگی اختیار کرو!۔ اِس عُمر میں بھی تم اپنے گلے میں ٹلّ لٹکائے ہُوئے پھرتے اور کبھی کبھی اسے بجاتے بھی ہو ۔ مَیں تمہارے ہاتھوں انقلاب کی یہ دُرگت بنتے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
بابا ٹلّ۔ اے شیخ الاسلام یا جو کچھ بھی تُم ہو ۔ میرا بھی تمہاری طرح 90 ملکوں میں کاروبار ہے ۔ مَیں غریب نہیں ہُوں اور نہ ہی مجھے تمہاری طرح ’’ قائدِ انقلاب‘‘ کہلانے یا بننے کا شوق ہے ۔ اگر مَیں انقلاب پر سواری نہیں کرسکتا تو وہ میرے کِس کام کا؟‘‘۔
علاّمہ طاہر اُلقادری طیش میں آگئے ۔ وہ اعضاء کی شاعری کرنے والے ہی تھے کہ بابا ٹلّ نے تین بار ٹلّ بجایا ۔ پھر میری آنکھ کُھل گئی۔