شریفانہ سیاست اور اشرافیہ حکومت

Feb 20, 2018

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

نواز شریف نے کہا کہ اب یہ لوگ مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر بننے دیا۔ نواز شریف کے مقابلے میں کھڑا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ اہل اشخاص نے ایک نااہل شخص کو اپنا صدر بنا لیا اور کسی نے کچھ نہ کہا۔ حتیٰ کہ منتخب کرنے والوں نے بھی نہ کہا یہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ یہ تو پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔
یہ کیسی غیرمعمولی بات ہے۔ انہونی یہی ہے کہ کسی نااہل شخص کو صدر بنا دیا جائے۔ اب ٹی وی والے بار بار انہیں نااہل صدر کہتے ہیں۔ بھلا دنیا میں کوئی ایسی مثال ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ وہ پارٹی صدر ہیں مگر اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ وہ کبھی صدر پاکستان بنیں گے؟ مسئلہ اختیارات کا ہے۔ وہ پارٹی صدر ہیں مگر ازخودمثالی اور عوامی صدر ہیں۔ بہت محترم اور عزیز مریم بھی نواز شریف کو اپنا صدر سمجھتی ہیں مگر زیادہ تر جلسوں میں نواز شریف کے لیے ایک ہی نعرہ لگتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف
اگر نعروں سے وزیراعظم بنتا تو نواز شریف ہی ہمیشہ کے لیے وزیراعظم ہوتے۔ کبھی کبھی شہباز شریف کے لیے بھی وزیراعظم کا نعرہ لگتا ہے اور اب فیصلہ ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا جانشین کون ہو گا۔ عام طور پر لوگ چاہتے ہیں کہ شہباز شریف وزیراعظم بنیںمگر اب نواز شریف مریم نواز کو ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ مریم اتنی کانشس ہیں کہ اب وہ اپنے آپ کو نام کے ساتھ مریم نواز شریف میں لکھتی۔ حمزہ بھی شہباز شریف بھی لکھتے ہیں۔
میں حمزہ شریف کو پسند کرتا ہوں۔ اس نے کبھی اپنے لیے نعرے نہیں لگوائے۔ پہلے بھی وہ شریف فیملی کے جانے کے بعد پاکستان میں شریف فیملی کے لیے محافظ اور نگران رہے ہیں اور کسی طرح کی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
حمزہ نے مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے کبھی کوئی کوشش نہیں کی مگر وہ سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو شریف فیملی کے لیے جانشین حمزہ شہباز ہے مگر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں نکلی۔ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے اتنا وفادار ہیں کہ رشتوں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مریم تو اس جنگ میں اقتدار کے لیے بہت پہلے سے شریک ہیں۔ مگر حمزہ حسب معمول خاموش ہیں۔ اپنی عظیم والدہ کی انتخابی مہم بھی مریم نواز نے اکیلے چلائی تھی۔ حمزہ باہر گئے ہوئے تھے۔ سنا ہے ۔ ایک دفعہ بھی مریم نے حمزہ کا نام انتخابی مہم میں نہ لیا۔
حمزہ بھی بیرون ملک چلے گئے اور واپس آئے جب تو یہ ضمنی الیکشن ہو چکا تھا۔ سنا ہے وہاں حمزہ نے محترمہ کلثوم نواز کی عیادت کی تھی۔ یہ الیکشن بھی مریم نواز نے لڑا تھا۔ اپنی ماں کی بجائے اگر خود مریم نواز الیکشن لڑتیں تو....؟ کلثوم نواز نے نہ حلف اٹھایا نہ پاکستان آئیں۔
وہ بہت بڑی خاتون ہیں۔ اللہ انہیں شفائے کاملہ دے۔ وہ میرے ساتھ پڑھتی تھیں۔ مجھے کبھی کبھی مریم نواز فون کر لیتی ہیں۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں اس کی ماں کے ساتھ پڑھتا تھا اس کا کبھی فون نہیں آیا۔ شاید وہ وزیراعظم بن جائیں مگر بے نظیر بھٹو نہیں بن سکتیں؟
ایک دن آئے گا کہ آصفہ بھٹو زرداری اور مریم نواز کا مقابلہ ہو گا۔ یہ ”صدر“ زرداری کی سیاسی بصیرت اور گہری سوچ ہے کہ انہوں نے اپنے تینوں بچوں کو بھٹو کا نام دیا۔ جو بے نظیر بھٹو کی بھی یاد دلاتا ہے اور عظیم بھٹو کی یاد سے دلوں کو آباد کرتا ہے۔ آصفہ بھٹو زرداری دو نشستوں سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
اگر نواز شریف نااہل نہ ہوتے اور مریم ان کے ساتھ ساتھ ہوتیں تو بات کچھ اور تھی۔ اب جلسہ نواز شریف کا ہوتا ہے تو وزیراعظم نواز شریف کا نعرہ لگتا ہے اور جلسہ مریم کا ہو تو وزیراعظم مریم نواز کا نعرہ لگتا ہے اور جس اجلاس میں دونوں باپ بیٹی ہوں تو نعروں کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ نعرے لگانے والے کرائے پر بھی مل جاتے ہیں۔ رونے والے چیخنے چنگھاڑنے ناچنے والے بھنگڑا ڈالنے والے ہر طرح کے لوگ مل جاتے ہیں۔
یہ رواج بھی نواز شریف نے رکھا تھا کہ الیکشن میں دھونس دھپا غنڈہ گردی اور مال و دولت سے ذاتی اور سیاسی مسائل حل کر لیتے ہیں۔ اب نواز شریف کو کیا خطرہ ہے کہ لوگ انہیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ اقتدار سے وہ ہٹنے کے باوجود اقتدار میں ہیں۔ وزیراعظم ان کا گویا وفاقی حکومت ان کی۔ صوبائی حکومت تو کب سے ان کی اپنی ذاتی ہے۔ ابھی تک لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی کہ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں۔ اب شاہد خاقان عباسی کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اگر شاہد خاقان عباسی خود کو وزیراعظم نہ سمجھیں تو لوگ کیا کریں۔ احکامات تو انہی کے چلتے ہیں۔ لوگوں کو پتہ ہے کہ وزیراعظم تو خاقان عباسی ہیں۔ نواز شریف زیادہ سے زیادہ سابق وزیراعظم ہیں۔ یہ غلط ہے کہ کوئی ملک وزیراعظم کے بغیر چلایا جائے اور جو وزیراعظم ہے وہ کہتا ہے میں وزیراعظم نہیں۔
میرے خیال میں نواز شریف بہت زبردست سیاسی آدمی ہیں۔ انہیں نااہل کیا گیا تو انہوں نے پورے پاکستان میں تقریریں کر کے اہل اور نااہل کا فرق بنا دیا ہے۔ وہ جلسوں میں حاضرین سے باقاعدہ پوچھتے ہیں کہ عدلیہ نے مجھے ناجائز طور پر نااہل کیا۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ وہ ناجائز طور پر اہل ہوئے تھے۔ آخری بات معذرت سے کرتا ہوں کہ میرے منہ میں خاک، ہم نااہل لوگ ہیں مگر ہم نے دنیا میں بڑے بڑے کام بھی کیے ہیں۔ ہمیں کوئی تو بتائے کہ اہل کون ہوتا ہے؟
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں