نشانِ امتیاز…ایک ریفرنس بک

قیامِ پاکستان سے لے کر وطن عزیز کے ایٹمی قوت بننے تک اور اب بھی دشمنان اسلام اور پاکستان نے اس کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور ابھی تک اپنی ان مذموم ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں مگر رمضان المبارک کی لیلۃ القدرکو قائم ہونے والی اس مملکت خداداد کو اللہ رب العزت نے تا قیامت قائم رکھنا ہے اور وہی ذات بابرکات و والا صفات ہی اس کی حفاظت فرمائے گا مگر دکھ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ماسوائے اپنے ذاتی اورسیاسی مفادات کے استحکام پاکستان اور قومی ترقی و خوشحالی کے لیے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے اور مستقبل میںبھی ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس پر ممتاز دانشور اور شاعر شعیب بن عزیز کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
رات ڈھلتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
ہمارا ازلی اور عیار مکار دشمن بھارت جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اپنی فوج کے ذریعے نہتے اور معصوم کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے میں منہ کی کھائے گا۔
بھارت کے ایٹمی قوت بننے کے بعد ہمارے ملکی و قومی تحفظات، سلامتی وا ستحکام پور ی قوم کے لئے ایک لمحہ فکریہ بن گیا تو پاکستان کے ایک سچے، محب وطن اور نامور سپوت ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی و میزائل قوت کا تحفہ دے کر پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تحفظ و سلامتی کا ناقابل تسخیرآہنی لبادہ مہیا کردیا۔جس پر دشمنان پاکستان اب تک تلملارہے ہیں اور اپنی بے بسی پر کف افسوس ملنے کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس عظیم کارنامے کی بدولت پاکستان نے نیو کلیئر پاور بننے کے بعد ملک کو جو دفاعی استحکام حاصل ہوا اس کی تصدیق امریکی مصنف باب وڈ وارڈ ( Bob Wood Ward)کی کتاب ’’اوبامہ کی جنگ‘‘ ( Obama's War) سے ہوتی ہے وہ لکھتا ہے ’’جب پاکستان کو سیدھی راہ پر لانے کے لئے امریکی صدر اوبامہ کی بریفنگ میں بحث ہورہی تھی کے کیوں نہ پاکستان میں امریکی اور نیٹو افواج اتار دی جائیں تو کہا گیا کہ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہے کہ پاکستان،شام یا عراق نہیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچے بغیریہ اجلاس ختم ہوگیا‘‘۔ آفرین ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر کہ انہوں نے پاکستان کوایٹمی و میزائل قوت بنا کر امریکہ جیسی سپر پاور کو بھی پاکستان پر حملہ کرنے سے بے بس کر دیا اور زیر تذکرہ کتاب ’’نشانِ امتیاز‘‘ جو معرف دانشور اور ممتاز صحافی 18کتابوں کے خالق جبار مرزا کی تخلیق ہے جنہوںنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں جس کے باعث اگر انہیں ماہر قدیریات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جو گزشتہ 34برس سے ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے عقیدت مندوں میں شامل ہیں اور ان سے اس طویل قربت کے باعث وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کے ہر شعبہ سے کما حقہ آشنا ہیں اور انہوں نے اس کتاب میں حقائق پر مبنی جو چشم کشا انکشافات کیے ہیں ان سے پاکستان کے ہر محب وطن شہری کا آگاہ ہونا از بس ضروری ہے۔ کتاب جو272صفحات پر مشتمل ہے جو محسن پاکستان، ان کے اہل خانہ ، دوستوں ، ساتھیوں اور اہم تقریبات کی نادر تصاویر سے مزین ہے۔ کتاب کا ٹائٹل اور طباعت عمدہ اور دیدہ زیب ہے۔ ’’عرض مصنف ‘‘ میں جبار مرزا نے قومی اورعالمی سطح کے اہم واقعات کا ذکر کرکے انہیں ہمیشہ کے لئے تاریخی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا ہے۔ کتاب میں لہوو لعب کے دلدادہ رنگیلے ڈکٹیٹر پروریز مشرف جس نے ڈالروں کے عوض اس وقت کے امریکی صدر بش کے ہاتھوں پاکستان کو بیچ دیا تھا کے حوالے سے جبار مرزا رقمطراز ہیں ’’پرویز مشرف 18اگست 2008‘‘ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر قوم سے معافی مانگ رہے تھے تو مجھے 4فروری 2004 نگاہوں میں گھوم گیا جب پرویزمشرف محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جبراً اعترافی بیان کے لیے ٹیلی ویژن پر لائے ۔ محسن پاکستان کے اس واقعہ پر قوم رنجیدہ ہوئی تھی جبکہ پرویز مشرف کی معافی پر پوری قوم نے شادیانے بجائے، یوم نجات منایا دراصل وہ یوم مکافات عمل تھا۔ لاپتہ افرادکی آہیں تھیں، لوگ سڑکوں پر تھے ، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور عوام کے عدم تحفظ نے پرویز مشرف کو غیر مقبول کر دیا تھا چاروں صوبائی اسمبلیاں باری باری ، 11اگست 2008کو پنجاب اسمبلی ، 21اگست کو سرحد اسمبلی، 13اگست کو سندھ اسمبلی اور 15 اگست 2008کو بلوچستان اسمبلی نے پرویز مشرف کے مواخذے کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر چکی تھیں۔مواخذے کی ان قراردادوں میں پرویز مشرف کے خلاف ’ق‘لیگ نے بھی بھرپور حصہ ڈالا قریب تھا کہ وہ قومی اسمبلی جس کو خود پرویز مشرف نے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکے دکھائے تھے وہ بھی صدر کا مواخذہ کرتی کہ پیٹی بھائیوں نے پرویز مشرف کو مستعفی ہونے کے مشورہ دیا وگرنہ لگ پتہ جانا تھا اور اس کا سارا نو سالہ دور غیر قانونی اور قبضہ تصور ہوتا اور عمر بھر کے لئے نااہل ہوجاتا پرویز مشرف اپنے اور پرائیوں کی نظر میں اس قدر بے توقیرے اور بے اعتبارے ہوچکے تھے کہ اس وقت تک انہیں بیرون ملک نہ جانے دیا گیا جب تک ایٹمی اثاثے پہلے والی جگہ سے نامعلوم جگہ پر منتقل نہیں کر لئے گئے‘‘۔ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والے اس عظیم محسن کے خلاف دیگر بونے لوگوں کی گھنائونی سازشوں کو بھی جبار مرزا نے بڑے جامع انداز میں تحریر کیا ہے ۔ کتاب مذکورہ کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اہلیہ محترمہ! محسن ملت ہنی خان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ دیباچہ دو صحافت پر مشتمل ہے جسے مختصراً مگر بھر پور انداز اور حسن میں ڈوبے ہوئے الفاظ کے ساتھ معنی ومفہوم کی گہرائی اور گیرائی سے مرصع ہیں فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) محمد طفیل بسمل نے تحریر کیا ہے جو نثری شاعری کی ایک عمدہ مثال ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کتاب میں جن اہم اور تاریخی واقعات کو مرقوم کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہیں۔
٭…جنرل ذوالفقار نے اچانک غوری کی فائرنگ سائٹ تبدیل کرائی مقصد ثمر مبارک مند کو ہیرو بنانا تھا مگر شاہین فائر نہ ہوسکا۔ 1999میں خفیہ والے سے کہا ثمر مبارک مند بدنامی کا باعث بنے گا٭…اٹارنی جنرل نے کہا ڈاکٹر عبدالقدیر خان ساری عمر گھر میں نظر بند رہیں گے ٭…غوری Iکوریا ساختہ IIکہوٹہ کا تیار کردہ جبکہ غوری IIIپر جنرل پرویز مشرف نے کام رکوایا دیا تھا ٭…شیخ رشید احمد نے میڈیا چیفس سے کہا آج سے ہیرو کو زیرو کرنے کا ٹاسک دیا جارہا ہے،انور محمود نے مداخلت کی ’’آج سے نہیں ابھی سے ‘‘ ٭… اسرائیل کہوٹہ کو نشانہ بنانا چاہتا تھا ٭… جنرل ضیاء الحق نے مصری صدر حسنی مبارک کے ذریعے اسرائیل کو پیغام پہنچایا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کیخلاف نہیں ہے ٭…امام خمینی نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق ایرانی قوم پر بہت بڑا احسان ہے، ضیاء الحق نے ایران کو ایٹمی قوت بننے میں اس لیے مدد دی ٭…میر ظفر اللہ خان جمالی نے میڈیم ہنی خان کو ہلال امتیاز دیا ، جنرل پرویز مشرف نے واپس لے لیا۔

ای پیپر دی نیشن