انسانی عمل‘ ردعمل اور معاشرہ

Feb 20, 2018

مسرت لغاری ........ فکر جہاں

قارئین! انسانی زندگی عمل اور ردعمل دو اہم ستونوں یا پہلوئوں پر قائم ہے سراغ یہ لگانا ہے کہ انسان کی برائی یا اچھائی اس کے کس عمل کا ردعمل ہوتی ہے؟ بظاہر یہ ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان جب تک نیک عمل کرتا ہے تو ردعمل کے طور پر نیک کہلاتا ہے اور اگر برا عمل کرتا ہے تو برا کہلاتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہے حقیقت میں انسان بنیادی طور پر اتنا کمظرف و کم حوصلہ واقع ہوا ہے کہ وہ نیکی کرنے یا نیک کہلانے سے پہلے ہی اپنے ہر اچھے عمل کے جواب میں خداوند تعالیٰ سے اس کے ردعمل کے طور پر فوری طور پر صلہ وصول کرنا چاہتا ہے حد یہ کہ اپنی برائی تک کے جواب میں بھی لوگوں سے اچھائی اور نیکی کا طلب گار ہوجاتا ہے بلکہ اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو ردعمل کے طور پر مزید برا بن جاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ نیکی کے جواب میں اسے دنیا میں ہرگز نیکی نہیں مل سکے گی بلکہ ہمیشہ نہیں تو اکثر اسے نیکی کے بدلے میں ردعمل کے طور پر مدمقابل کی بدی ہی برداشت کرنی پڑے گی جس کی بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کا مدمقابل بھی اسی کی طرح کا کمزور اور خطا کار انسان ہوتا ہے وہ اپنی تمام تر کمزوریوں سمیت اتنا اچھا یا مکمل طور پر نیک کس طرح بن سکتا ہے کہ اس کی نیکی بروقت اور مکمل پہچان کرلے اور بدلے میں اسے اچھائی ہی واپس کرے بلکہ جس طرح نیکوکار نے بمشکل اچھائی کی ہوگی مخالف فریق کو بھی اچھائی کرنے میں اتنا ہی زور لگانا پڑا ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے علیحدہ عمل اور ردعمل کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیںکہ انہیں نیکی کرکے فوری طور پر بھول جانے کا اس لئے حکم دیا گیا ہے کیونکہ نیکی جس کے کرنے پر اتنا زور صرف ہوتا ہے وہ بجائے خود اتنا بھاری عمل ہے کہ اس کا حساب انسان چکا ہی نہیں سکتا کیونکہ اگر وہ خود اتنا نیک ہوتا اور یہ بوجھ سہہ جانے کے قابل ہوتا تو مدمقابل سے نیکی حاصل کرنے کا محتاج ہی کیوں ہوتا؟ لہٰذا یہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کے کھاتے ہی ہیں کیا جاسکتا ہے اور وہی اس کا اجر دے سکتا ہے اس حوالے سے دونوں کو یعنی طرفین کو اپنے اچھے اور برے ردعمل کے اظہار سے نہ صرف یہ کہ خود کو روکنا ہوگا بلکہ صبر کے ساتھ ساتھ جبر ذات بھی کرنا ہوگا ان میں اتنی قوت ایمانی اور جذباتی مزاحمت ہونی چاہئے کہ وہ React نہ کریں یاد رکھیں ردعمل یا Reaction بنیادی طور پر انسان کی کمزوری کی دلیل ہے بلکہ خود کو خود ہی مطمئن کرنے کی ایک کمزور دلیل یا بودی کوشش ہے۔
آپ نے اکثر سنا ہوگا ڈاکٹر نے فلاں مریض کو شفا کی خاطر انجکشن لگایا لیکن اسے Reaction ہوگیا جس کا مطلب یہ ہے کہ مریض میں قوت برداشت یا قوت مزاحمت کی کمی تھی اس لئے انجکشن React کر گیا ورنہ اگر وہ بجائے خود انجکشن کے Reaction کو سہہ جاتا اور دوائی کے Reaction کا آسانی سے شکار نہ ہوجاتا تو وہ اس کے خون کا حصہ بن کر اسے صحت یاب کرسکتی تھی۔
بعینہ عام انسانی زندگی میں بھی قوت مزاحمت یا مضبوطی کی کمی اس کے ردعمل کا جواز بنتی ہے یوں یہ طے ہوا کہ ردعمل ایک کمزور عمل اور کمزور صفت ہے اگر انسان کسی کے برے عمل پر اپنے ردعمل کا فوری اظہار کرتا ہے تو ایسا کرنا خود کو کمزور ثابت کرنے کے مترادف ہے سوچا جائے تو انجکشن اور Reaction جیسی سائنسی نظریئے کی عملی بنیاد بھی ہمارے حضورؐ پرنور نے اپنی ذات مبارک پر جبر و صبر کے حوالے سے صدیوں پہلے رکھ دی تھی یعنی ایک طرف تو ان کی ایک اکیلی ذات تریاق اور اکسیر کی صورت میں موجود تھی دوسری طرف پورے معاشرے کی جہالت اور جدیوں وبرائیوں کا کینسر تھا۔
آپ کے اعلیٰ ترین اور مکمل ترین نیک عمل کے جواب میں بدکاروں اور مشرکوں کا ردعمل لمحہ بہ لمحہ اور قدم بدقم بدی کی صورت میں نمایاں ہورہا تھا جس کے جواب میں حضورؐ پرنور نے کسی بھی قسم کے منفی یا تلخ ردعمل کا اظہار نہ فرمایا بلکہ اپنے ارفع عمل کا علم تھامے رکھا کیونکہ اگر وہ بھی کسی جواز کے تحت ردعمل فرما لیتے تو پھر صرف اور صرف ان کے عمل پر ردعمل کرنے یا ان کی منفی قوتوں کے ردعمل کو رد کرنے میں ہی ان کا تمام تر قیمتی وقت صرف ہوجاتا اور حق و باطل کے درمیان انتہائی ابتدائی مراحل ہی میں محاذآرائی شروع ہوجاتی جو مشرکوں کو کبھی حق کی پہچان نہ کرنے دیتی اورایسا ہوجانے سے نہ صرف یہ کہ ان کی اکمل ترین ذات کا اکمل ترین عمل بلکہ ان کی ہستی اقدس رسالت ونبوت اور شب معراج کی رفعتوں تک پہنچتے ہیں زیادہ وقت لے لیتی چنانچہ حکم ربی کے تحت ان میں قوت ایمانی کے حوالے سے بدی کی مزاحمت اور اپنی ذات پر صبروجبرکی مقدار اس حد تک بڑھا دی گئی تھی کہ وہ ہرقسم کی بدی برائی اور معاشرتی خرابی پر ردعمل سے مبرا قرار دئیے گئے ان کے سامنے مقصد اتنا واضح غیر معمولی اور اعلیٰ ترین رکھ دیا گیا کہ کسی کے کسی بھی قسم کے ردعمل کا خوف ان کو متزلزل نہ کرسکا ان میں انسان بنیادوں پر رحم ، حلم اور حساس ترین جذبوں کی انتہائیں موجود تھیں تاہم ان کو ان پر سواری کی قوت عطا فرمائی گئی کیونکہ وہ معاشرے کی تمام تربرائیاں دورفرمانے کی خاطر ان کو اصلاح وفلاح کا درس دینے اور اس کا تریاق جیسا ردعمل دیکھنے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔ انہوں نے ذاتی ردعمل کا کبھی اظہار نہ فرمایا تمام زندگی عملی طور پر وہ اپنے اعلی عمل کا اکسیروتریاق معاشرے کی رگوں میں اتارتے رہے ضبط اور ردعمل برداشت کرنے کی چبھن سے خود مسلسل گزرتے رہے اور غالباً یہ ان کے ضبط وجبرکی انتہا تھی کہ ان کی تنہا ذات پورے معاشرے کی باطل قوتوں سے ٹکرا گئی تھی اور فاتح قرارپائی تھی وہ اکمل ہستی کمزورنہ تھی اپنے ردعمل کی قوتوں پراکمل قابو رکھتی تھی اس لئے وہ صرف نیک عمل ہی میں مصروف رہی۔
بہرحال ان تمام ترحقائق کی روشنی میں کہنا یہ ہے کہ آج کا کھوکھلا انسان قوت مزاحمت اور صبروجبرکی قوت سے یکسرعاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ تمام تروقت ایک دوسرے کا عمل دیکھنے یا اس کے ردعمل پر ردعمل کرنے میں مشغول ہے خود اچھے عمل کرنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں ہے نہ ہی وہ وقت نکالنا چاہتا ہے نتیجتاً وہ عمل اور ردعمل کے درمیان الجھ کر دونوں قوتوں کو قابو نہیں کرسکا اور یہ کمزورترین معاشرے کی نشانی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرے میں ایک آدمی اگرکسی کو قتل کرنا چاہتا ہے تومدمقابل بغیرسوچے فوری طور پر React کرکے اسے قتل کردے یوں معاشرہ ضبط سے عاری ہوکر کمزورعمل کے کمزور ردعمل کی بھینٹ چڑھ جائے دراصل ردعمل کا اظہارنہ کرنا ہی اصل طاقت بلکہ خدائی صفت ہے خود اللہ تعالیٰ بھی بندے کے ہر عمل پر فوری ردعمل کا اظہارنہیں فرماتا بلکہ اس نے یوم حساب مقرر فرما دیا ہے ورنہ تواسے ہرانسان کے لئے انفرادی سطح پر ہرروزسزا دینے کے لئے الگ الگ قیامت برپا کرنی پڑتی۔ میں سمجھتی ہوں اگرانسان دوسرے انسان کی بدی یا برائی یا بُرے سلوک پر React کرنے کے بجائے خود بدی چھوڑدے اور خود میں صبروحوصلے کی قوت پیدا کرلے تومعاشرہ خود بحود سنورتا چلاجائے گا ہرفرد معاشرے کی عمارت کے لئے ایک اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے جو بظاہرغیر اہم ہوتی ہے لیکن اسی ایک اکیلی اینٹ کی کمی سے پوری عمارت بھی نہیں بن سکتی نہ ہی کھڑی رہ سکتی ہے لہذا طے ہوا کہ فوری ردعمل کمزورعمل ہے اس سے گریزکیجئے خود میں صبروحوصلہ پیدا کیجئے یہی مسائل کا حل ہے ۔

مزیدخبریں