گذشتہ ہفتے ہم نے مشرق وسطیٰ‘ پاکستان اور ایران کے بارے میں کچھ نمایاں باتیں لکھی تھیں۔ آج کی نشست دوبارہ سے مشرق وسطیٰ‘ پاکستان امارات و سعودیہ و ایران کے تاریخی مطالعہ و تجزیہ کے لئے پھر وقف کر رہے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ‘ حکمرانوں کا تجزیہ اور اقوام و سرزمینوں کا تاریخی مشاہدہ کرنا ’’آئینہ ایام‘‘ ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کے لئے سفر کرنے کی ترغیب ہے کہ جاؤ زمین کا مشاہدہ کرو اور اپنے سے پیشتر اقوام اور حکمرانوں کے انجام سے سبق عبرت حاصل کرو۔ لہٰذا ہمارا تجزیہ ہے کہ ’’ٹورازم‘‘ کو فروغ دینا قرآنی مطلوب اسلوب ہے۔ ماضی بعید میں محمد رضا شاہ پہلوی ایرانی کے شاہ تھے۔ ان کے والد رضا شاہ پہلوی نہایت ظالم و جابر حکمران تھے۔ مسلکی طور پر سخت متعصب بھی۔ ایرانی بلوچوں اور ایرانی عربوں سے ان کا معاملہ غیر انسانی حد تک جا پہنچا تھا۔ ایرانی قوم کی بدقسمتی کہ ایک بدتر ذہن کا رضا شاہ پہلوی حکمران بن گیا جس نے ثقافت تک کو ایرانی مسلکی زاویہ تک محدود کر دیا۔ بالآخر اس کے جبر و ظلم سے مذہبی قیادت بھی تنگ آ گئی۔ جمال الدین اگرچہ افغانی حنفی تھے مگر انہوں نے ’’قم سیارہ کر شیعہ ثقہ آیات اللہ شخصیات سے بھی تعلیم و تربیت پائی تھی۔ ان کی خواہش اور کوشش سے اثنا عشری مجتہد حاجی میرزا حسن شیرازی نے تمباکو کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا اور پھر تمباکو فتویٰ ہی رضا شاہ کے جبر و ظلم کے زوال کا 1906ء میں راستہ بنا۔ کاش ہمارے سنی اور شیعہ اذہان اس عہد جلیل کو پھر سے واپس لائیں جہاں ایرانی ظلم و جبر کے ازالے کے لئے ایک حنفی سنی افغانی متحرک و فعال ہوتا ہے اور ایک شیعہ ماہر قانون جسٹس امیر علی سنی خلافت عثمانیہ کا سیاسی مقدمہ لڑتا ہے یا اسمٰعیلی شیعہ مسلک کا امام وقت سر آغا خاں سنی ہندی مسلمانوں کا سیاسی مفاد اپنا مسلکی مفاد بنا لیتا ہے۔ محمد علی جناح سر آغا خاں کی طرح دوٹوک کہتے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد وہ مشرق وسطیٰ کا حصہ اور عربوں کا دست و بازو ہو گا۔ کاش ہمیں ماضی جیسے اثنا عشری و اسمٰعیلی شیعہ اور جمال الدین افغانی کی طرح کے حنفی سنی میسر آ جائیں جو تنگ سی ’’مسلکی‘‘ اور فقہی ’’آبجو‘‘ کی بجائے فکری سمندروں میں سیاسی جہان بانی و جہاز رانی کریں۔ میرے دل میں اسمٰعیلی فاطمی مصری قدیم حکومت کی بہت زیادہ عزت ہے کہ اس نے ایسے دلیر شیعہ جج اور قاضی القضاق مقرر کئے تھے جو اسمٰعیلی‘ اثنا عشری‘ زیدی‘ شیعہ مسلک کی بجائے قانونی عمل میں سنی فقہاء و مجتہدین کی فقہی آراء و اجتہادات کو اپناتے تھے اور شیعہ ہو کر بھی امام شافعی کی فقہہ کی روشنی میں فیصلے دیتے تھے۔ جامعہ ’’الازہر اسی فاطمی زریں عہد کی نشانی ہے میرے ایم اے عربی میں عرب اساتذہ کا تعلق مصر کی اسی جامعہ ازہر سے تھا اور ایک استاذ عبدالرحمان قلہ کا تعلق شام سے تھا۔ استاذ عبدالعلی کی تدریس سے مجھے قرآنی مفاہیم و مضامین کی روشنی میں مصوری‘ آرٹ اور و ثقافت کا فہم میسر آیا۔ صدر ایوب خاں کے ساتھ شاہ ایرانی نے عمدہ تعلقات قائم کئے۔ بھارتی جنگ میں ایران پاکستان کا دست و بازو بھی بن گیا۔ محمد رضا شاہ کا شاہی عہد مشرق وسطیٰ اور پاکستان و افغانستان کے لئے ’’خیر‘‘ کا آئینہ ایام تھا۔ البتہ بھٹو سے شاہ ایران کے تعلقات صدر ایوب کی طرح نہ رہے تھے لاہور کی اسلامی کانفرنس میں شاہ ایران نے شرکت نہ کی تھی گویا بھٹو عہد سے ایران اور پاکستان آہستہ آہستہ دور ہونا شروع ہوئے جبکہ قذافی و شاہ فیصل‘ حافظ الاسد و یاسر عرفات کے ذریعے پاکستان عربوں کے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ ہماری نظر میں خلیجی عربوں اور سعودیہ سے قریبی تعلقات قائم کر کے بھٹو نے سر آغا خاں اور قائداعظم کے سیاسی مؤقف کو عملاً نافذ کیا تھا۔ بھٹو عہد میں شام و فلسطین کے حوالے سے پاکستانی عسکری کردار بہت نمایاں تھا۔گزشتہ اشاعت میں ہم نے ایک روحانی شخصیت کی پیش گوئی کا ذکر کیا تھا کہ ایران میں دوبارہ سے بادشاہت قائم ہو گی۔ آج سعودیہ اور امارات قطر عربوں میں سیاسی تقسیم کا عنوان ہے۔
شاہ سلمان کا عہد اور انکے لخت جگر محمد بن سلمان کا قری عہد بننا سعودیہ کی تاریخ میں نمایاں ترین فکری، ثقافتی، سیاسی ،داخلی ’’ اہم ‘‘ تبدیلی کی شاہراہ کہلا سکتا ہے۔ سعودیہ ماضی کے تنگ نظر سخت گیر، علماء کی گرفت سے آزاد ہو چکا ہے سعودی خواتین کو وہ تمام آزادیاں ریاست نے دے دی ہیں جن کا راستہ تنگ نظر علماء اور سرداران قبائل نے روکا ہوا تھا۔ لیکن مجھے بار بار شاہ فیصل کا شاہ ایران کو دیا گیا مشورہ یاد آتا رہتا ہے۔ کہ قدیم روایات و اقدار کو جلد بازی اور بہت تیزی سے تبدیل کرنے سے جو ’’ رد عمل‘‘ پیدا ہوتا ہے اس سے تعمیر و ترقی و ارتقاء کے نافذ کرنے والے حکمران کو بھی عروج کی بجائے زوال آ دبوچتا ہے، کیا شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے یہ پہلو ہے؟ شائد اگلے چند ماہ میں انہیں شدید خطرات کا سامنا ہو گا۔ کرپشن کے حوالے سے سعودی شہزادوں اور وزراء کی گرفتاریوں کا کافی مثبت پہلو سامنے آ چکا ہے باغی شہزادہ ولید بن طلال اور شہزادہ ترکی اب تحریری طور پر شاہ سلمان کو جائز اور قانونی بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور ولی عہد کے منصب پر شہزادہ محمد بن سلمان کی تعیناتی کو بھی آئینی اور قانونی طور پر تبدیل کر چکے ہیں۔ مستقبل قریب میں اس فقیر کو ایران اور سعودیہ میں جنگی صورتحال نظر نہیں آرہی کہ درمیان میں پاکستان دونوں اطراف کو ’’ ٹھنڈا‘‘ کرنے کے لئے موجود ہے۔ البتہ مشرق وسطیٰ کا شام جس جہنم کا نام بن گیا ہے وہاں ترکی، امریکہ و روس میں جہاں کشمکش پہلے سے موجود ہے وہاں اسرائیل اور ایران میں نئی کشمکش شروع ہے جبکہ یمن کے حوثی اور القاعدہ بدستور متحرک ہیں۔ کیا یمن پھر سے جنوبی اور شمالی یمن میں تقسیم ہو جائے گا؟ اگرچہ روس کے ساتھ مل کر انقلابی ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے اور صدر اوبامہ عہد میں عربوں کے ’’ تیر ‘‘ کانٹے ان کے جغرافیوں کو توڑنے کی حکمت عملی میں ایران نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے تا ہم ایران اقتصادی طور پر جس طرح غیر مستحکم ہوا ہے اس سے انقلابی مذہبی فیصلہ ساز حکمرانوں کو خوف زدہ رہنا ہو گا۔ اگر رھبر اعلیٰ اعلیٰ خامینائی کی بیماری انہیں منظر سے ہٹا دیتی تو شائد ایران میں تبدیلی کی لہر تیز ہو جائے جس کے رد عمل میں پاسداران انقلاب شاہ ایران سے بھی زیادہ ظلم و جبر نافذ کریں گے۔ ویسے موجودہ عہد بھی ایسی ہی شہرت رکھتا ہے۔
پس تحریر: چند دن پہلے سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی آئی ایس پی آر نے خبر دی ہے کہ تربیتی مقصد کے لئے آرمی کا مختصر سا حصہ سعودیہ جائے گا۔ اس پر سینٹ میں برادرم فرحت اللہ بابر نے شور مچا دیا تو چیئر مین سینٹ نے وزیر دفاع کو وضاحت کے لئے بلا لیا ہے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی شیریں مزاری، پی پی پی کی نفیسہ شاہ نے بھی وضاحت طلب کی ہے۔ وزیر اعظم عباسی کی اجازت سے یہ فیصلہ ہوا ہے ہم اس درست فیصلے کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ ماضی بعید میں جب جناب عبداللہ الزہرانی سفیر تھے تو قومی اسمبلی اور سینٹ میں سعودیہ کی حفاظت کے لئے قرار دادیں منظور اجتماعی طور پر ہو چکی ہیں لہٰذا اب شور کیوں ہے؟ وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں جنگی تربیت کے لئے ہمارے فوجی سعودیہ جائیں گے۔ سعودیہ کو اندرنی طور پر ملکی بنیاد پر کچھ عدم استحکام اور داعش القاعدہ سے بھی شدید ترین خطرات لاحق ہیں۔ حوثیوں کا معاملہ تو بالکل الگ بات ہے لہٰذا تنقید و اعتراض غلط ہے۔ 1982ء میں پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ با ضابطہ ہوا جب بیت اللہ پر خارجی سعودیوں کا المیہ رونما ہوا تھا۔ صدر زرداری کا عہد پاک سعودی تعلقات میں نا پسندیدہ ترین عہد تھا۔ اسے دوبارہ واپس مت لائیں چا بہار بندر گاہ ایران نے بھارت کو لیز پر دے دی ہے برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت کی وجہ سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔