انشااللہ وزیراعظم

لفظ ’’وزیراعظم‘‘ کے سابقوں میں ایک نئے سابقے کا اضافہ سامنے آیا ہے۔ وزیراعظم اپنی کرسی پر براجمان نہ رہے تو ’’سابق وزیراعظم‘‘ کرسی الٹا دی جائے تو ’’معزول وزیراعظم‘‘ عدالت عظمیٰ فارغ کر دے تو ’’نااہل وزیراعظم ‘‘ انشااللہ کا لفظ خیر تو ہر کوئی استعمال کر سکتا ہے کوئی ماں کہے کہ میرا بچہ انشااللہ فوجی افسر بنے گا۔ کوئی جج کہے کہ وہ انشااللہ چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچے گا۔ کوئی جیالا یہ کہے کہ بلاول بھٹو زرداری انشااللہ وزیراعظم بنے گا۔ گویا انشااللہ کا لفظ جوڑ کر کوئی کسی بھی منصب کیلئے جب اور جتنی دیر چاہے دل بہلا سکتا ہے۔
دور حاضر میں سیاست کے وہ، وہ رنگ دکھائی دے رہے ہیں جو اس سے قبل 70 سال میں دیکھنے میں نہیں آئے تھے عدالتوں کے اندر اور باہر ریمارکس کی بھی اتنی بہتات نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کے نزدیک میڈیا نے معاملہ کیا سے کیا کر دیا ہے۔ یہ عدالتی آبزرویشن کو سیاق وسباق سے ہٹ کر چلا دیتا ہے پھر اس پر جواب آتا ہے ایک بات ثابت کرنے بلکہ عوام کے دل ودماغ میں راسخ کرنے کی دن رات کوشش کی جا رہی ہے کہ نوازشریف کے بارے میں فیصلے عوام کی انکے بار میں رائے اور انکی مقبولیت سے لاگا نہیں کھاتے عوام جلسوں میں انکے گیت گاتے اور انکے نام پر بیلٹ باکس بھر دیتے ہیں جبکہ عدالتوں کے نزدیک وہ نااہل ٹھہرے ہیں یہ درست ہے کہ ووٹنگ رجحان میں تبدیلی نوازشریف کے بیانیہ کی مقبولیت ہے۔ نوازشریف کی پارٹی صدارت کو کالعدم قرار دیئے جانے سے سنگین مسائل پیدا ہوں گے کیا ن لیگ انہیں صدر سے بھی بڑا ایرانی رہبر علی خامنہ ای جیسا مرتبہ دے دیگی اور وہ قائد اعلی مسلم لیگ ن کہلائیں گے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ لیگیوں کی مرکزی کونسل کا اجلاس ہو اور صدارت کوئی اور کر رہا ہو۔ شاہدخاقان عباسی وزیراعظم ہو کر جس ذہنی فکری اور ادب و آداب کے لحاظ سے نواز شریف صاحب کے روبرو بیٹھ کر خود کو ان کا مطیع وفرمانبردار سمجھتے ہیں یہ تو انکی اعلی ظرفی اور خاندانی ہونا ہے نواز شریف لاریب عباسی صاحب کے محسن و مربی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور پرویزاشرف وزیراعظم ہو کر بھی زرداری صاحب کے روبرو مؤدب رہے اور آج بھی انکے سامنے سرتسلیم خم رکھتے ہیں۔ قائد پیرومرشد اور استاد کے سامنے سرتسلیم خم ہی تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے کے اعلان پر وزیردفاع کو سینٹ میں طلب کیا گیا ہے قومی اسمبلی میں بھی اظہار تشویش ہوا ہے ارکان اسمبلی کے نزدیک دستے بھجوانے کا اعلان پارلیمان کی مشترکہ قرارداد کی نفی ہے۔ فوجی دستوں کی تعداد بھی نہیں بتائی گئی دستے بھجوانے کے اعلان پر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اراکین اسمبلی جاننا چاہتے ہیں آرمی کے دستوں کا سعودی عرب میں کیا کردار ہو گا کس معاہدے کے تحت یہ دستے جا رہے ہیں فوجی کیا ڈیوٹی دیں گے یہ فیصلہ آخر کون سی ضرورت کے تحت کیا گیا۔ ایوان نے طے کیا تھا کہ مشرف وسطی کی اندرونی جنگوں کا حصہ نہیں بنیں گے فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے کے اعلان پر ردعمل کا جواب یہ ہے کہ طاقت کا اصل مرکز ملکی خارجہ پالیسی اور دفاع سے متعلق وہی فیصلے کرتا ہے جو پاکستان کی سلامتی آزادی اور خودمختاری کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں پاکستان اپنے پکے سچے دوستوں سے کنی نہیں کترا سکتا۔ دنیا میں دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر امن و سلامتی سے جینا آسان نہیں ہوتا ہم اپنے دوست نما دشمنوں سے تو کنی کترا سکتے ہیں لیکن سعودی عرب جس سے ہمارے ازلی ابدی رشتے ہیں دوری اختیار نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب سے ہمارا ناطہ قیامت تک قائم رہے گا کوئی بھی کلمہ گو حرمین شریفین سے کیسے جدا ہو سکتا ہے دنیا بھر کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں سعودی عرب کی دوستیاں زیادہ قدرومنزلت رکھتی ہیں ہر برے وقت میں سعودیوں نے ہمارا محض زبانی کلامی نہیں ریالوں اور ڈالروں کو نچھاور کرکے ساتھ دیا ہے۔ دوستی اعلانیہ اور غیر مشروط اور لامحدود ہوتی ہے مشروط دوستی دوستی نہیں بیوپار ہوتی ہے۔ سعودی عرب اور یمن کے مابین جنگ میں پارلیمان نے فوج بھیجنے کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ معاملہ دو مسلمان ملکوں کے مابین تھا۔ قطر کے معاملے میں بھی پاکستان نے یہی طرزعمل اپنایا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سکیورٹی تعاون 1967 سے جاری ہے جب دونوں ملکوں کے مابین فوجی معاونت کا معاہدہ ہوا تھا اور جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپا گیا تھا۔ اب بھی پاکستان کے فوجی دستے سعودی فورسز کو ٹریننگ دینے کیلئے بھجوائے جا رہے ہیں دونوں ممالک کی دوستی 1951 سے آج تک جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گی پاک سعودی دوستی میں سردمہری ہماری بدنصیبی ہو گی جسے ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ افغان مہاجرین کا بوجھ بٹانے میں سعودی عرب سے زیادہ کس نے ساتھ دیا؟ ہم ایک طرف تو سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک پیج پر ہونے کا برملا اعلان اور اعتراف کرتے ہیں اور دوسری طرف اظہار تشویش کرتے ہیں عسکری قیادت کے فیصلوں کو سیاسی فیصلوں کیخلاف کبھی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ عسکری قیادت زیادہ بہتر جانتی ہے کہ ہم کس کیلئے رہنما اور مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور کون ہمارے لئے نظریں بچھائے تیار رہتا ہے۔
زینب کے قاتل کو 4 بار سزائے موت کے فیصلے پر ننھی شہیدہ کے والدین کے کلیجے کو ٹھنڈ پڑی ہو گی لیکن جدائی کا غم اور یادوں کے پھولوں کی کیاری تاحیات تروتازہ رہے گی۔ غم زدہ والدین کا مطالبہ سرعام پھانسی کا ہے تاکہ جرم و سزا تادیر یاد رہے۔ سرعام پھانسی سے لوگوں کو عبرت ہو گی۔ احکامات الہی کو سامنے رکھیں تو قانون میںترمیم کے بغیر مجرم کو سرعام پھانسی دی جا سکتی ہے مجرم نے 9 بچیوں کے ساتھ زیادتی کی ابھی سزا صرف زینب کیس میں ہوئی ہے۔ حکومت کو سرعام سزا دینے کا اختیار ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والی 7 بچیاں مر چکیں، 2 زندہ ہیں جس تیزی کے ساتھ زنیب قتل کیس نمٹایا گیا وہ قابل تحسین ہے کاش اسی رفتار سے ہر قتل کیس نمٹنا شروع ہو جائے تو عدل جہانگیری کی یاد تازہ ہو جائیگی۔
اس وقت شریفوں کی سیاست کے ہاتھوں مخالفین کی پسپائی روز روشن کی طرح دکھائی دے رہی ہے اب ماضی کے اسلامی جمہوری اتحاد خواب وخیال ہو گئے۔ طاہرالقادری مال روڈ کے جلسے میں زرداری اور عمران کے دلوں کی کدورتیں صاف کرنے میں ناکامی کے بعد ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے عمرانی سیاست نے تو حد درجہ مایوس کیا ہے۔ لودھراں میں عمرانی سیاست کی ناکامی نے 2018 کے انتخابات کا منظرنامہ واضح کر دیا ہے۔ شریفوں کے ایک سے بڑھ کر ایک کامیاب جلسے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے بیانیے کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔ نااہلی کے بعد نواز شریف جاتی امرا میں منہ چھپا کر بیٹھ جاتے تو ن لیگ کی سیاست واقعی دم توڑ دیتی لیکن کسی سیانے نے میاں صاحب کو چین سے نہ بیٹھنے دیا وہ کمرکس کر پورے جوش وجذبے سے میدان عمل میں نکلے اور ان سے دوری اختیار کرنیوالے دوستوں کی قیاس آرائیاں غلط ثابت کر دیں۔ سابق وزیراعظم اور انشااللہ وزیراعظم اپنی بھتیجی اور فرزند کے ہمراہ خلاف معمول ایک ہی ہیلی کاپٹر میں درشن کرانے لودھراں پہنچے۔ مریم نواز بھی اب عکس بے نظیر بھٹو دکھائی دینا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کی کرشماتی شخصیت کہیں اپنے بڑوں کو بھی گہنا نہ دے۔ ووٹر انکی گاڑی پر اس طرح گل پاشی کرتے ہیں جیسے مشرف آمریت کے دور میں معزول چیف جسٹس افتخار چودھری کی گاڑی پر کرتے اور اسکے ساتھ چمٹ جاتے تھے۔ عمران خان صرف زرداری اور شریفوں کو ننگا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اکنامکس کا قانون تقلیل حاصل ان پر لاگو ہوتا ہے کہ جتنا کسی کو ملامت کی جائے اتنے ہی کان اکتائے جاتے ہیں جیسے ایک روٹی کے بعد دوسری روٹی اتنا مزہ نہیں دیتی کسی کو کتنا برا کہا جا سکتا ہے اور کس حد تک اس میں کیڑے نکالے جا سکتے ہیں ایک دن آتا ہے کہ دنیا والے ایسی ساس بہو کو کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ تو بھی ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ۔ تو کیا دودھ کی دھلی ہوئی ہے؟ اگر ہم منصف اعلی کے الفاظ کی تائید کریں تو 22 کروڑ عوام کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ کوئی چور ڈاکو تین بار تاج وتخت کا مالک رہا۔ کیا کسی چور ڈاکو کو ست بسم اللہ، جی آیاں نوں کہا جاتا ہے؟ میزان عدل جلد سامنے آنیوالا ہے جب ایک پلڑے میں احتساب عدالت کے فیصلے اور دوسرے پلڑے میں ’’سٹریٹ پاور‘‘ ہو گی؟ کیا سٹریٹ پاور اڈیالہ جیل کے سامنے دیوار چین بن جائیگی یا پھر قدرت اور عدلیہ کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرنا پڑیگا اور پھر انشااللہ وزیراعظم سامنے آئیگا!

ای پیپر دی نیشن