رمضان چشتی
انسانی سمگلروں کا تو یہی وطیرہ رہا ہے کہ ان کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں، اس لئے وہ جعلی ویزوں پر یاکسی بھی قانونی کاغذات کے بغیر انسانی سمگلنگ جیسا گھناؤنا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا نشانہ زیادہ تر وہ غریب ممالک ہوتے ہیں جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت غربت کی زندگی بسرکررہی ہوتی ہے اور ان کو بے روزگاری کی وجہ سے مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔ ان حالات سے ایسے سمگلر بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو کہتے ہیں کہ تمہارا بیٹا یا بھائی باہر جاکر چنددنوں میں حالات بہترکردے گا اور تمہاری زندگی بدل جائے گی اور اسی لالچ میں آکروہ اپنی نہ صرف تمام جمع پونجی اس کے حوالے کردیتے ہیں بلکہ بعض اوقات گھرتک بیچ دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور ایسا انسانی سمگلنگ کا گھناؤنا کام کرنے والوں کو نہ خدا کا خوف ہوتا ہے اور نہ ان کو کسی ماں باپ کی بددعا کا ڈر۔ ان کے نزدیک سب کچھ روپیہ پیسہ ہی ہے اور اسے ہی وہ اہمیت دیتے ہیں اس طرح غیر قانونی طور پر بذریعہ سرحد اور لانچوں پر جانے والے بارڈر پر سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں یا سمند ر میں ڈوب کر مرجاتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ان انسانی سمگلروں کے خلاف اگرچہ قانون حرکت میں بھی آتا ہے اور ان کی پکڑدھکڑبھی ہوتی ہے لیکن انسانی سمگلنگ کا دھندہ ایشیائی ممالک میں اب بھی جاری ہے اور ایسا گھناؤنا کام کرنے والے کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتے جبکہ باہر جانے کی غیرقانونی کوشش میں مارے جانے والوں کا ان کے گھروالوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ اگروہ خوش قسمتی سے پکڑے بھی جائیں تودیارغیر میں قید ہوجاتے ہیں کیونکہ جانے والوں کی بڑی تعداد غریب اور ان پڑھ ہوتی ہے لہٰذا ان کی زندگیاں غیرملکی جیلوں میں ہی گزرجاتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے جب وہ بے روزگار ہوگا اور آج کے مہنگائی کے دور سے گزررہا ہو تواس کے سامنے مشکلات ہی مشکلات ہوتی ہیں۔ اگروہ کسی طرح باہر مشرق وسطیٰ یا یورپی ملک میں چلا بھی گیا تووہاں اسے زندہ رہنے کے لئے ایسا کام کرنا پڑتا ہے جس کا اس نے اپنے ملک میں تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ میرے ایک جاننے والے کا بیٹا بمشکل ایک عرب ملک میں چلا گیا، کچھ عرصہ بعد باپ نے فون کیا توپوچھا بیٹا کیا کررہے ہو؟ توبیٹے نے جواب دیا بابا میں ایک ہوٹل میں صفائی کا کام کرتا ہوں۔ بیٹے کی یہ بات سن کر باپ کو دل کا دورہ پڑا اور وہ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی وفات پا گیا۔ باپ کے مرنے کے بعد بھی بیٹا واپس نہ آسکا اور باپ بیٹے کے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھتا دیکھتا اس دنیا سے چلا گیا اور وہاں محنت مزدوری کرنے لگ گیا اس سے بمشکل وہ اپنا ہی گزارا کرسکتا تھا لہٰذا وہ اپنے والدین یا بیوی بچوں کو کیا بھیجے۔ اسی طرح سالہا سال باہر جاکر رہنے سے گھریلو مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثرغیر قانونی طور پر انسانی سمگلروں کے ذریعے باہر جاتے ہیں اس لئے ان کے لئے فوری واپسی مشکل ہوتی ہے لہٰذا ان کو وہیں مجبوری کی حالت میں دن گزارنا پڑتے ہیں۔ ایک ایک کمرے میں کئی کئی افراد مل کر سوتے ہیں اسی طرح غیر قانونی طور پر جانے والوں کو اگرکام مل بھی جائے توان کو ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا ۔
اگرحکومتیں ملک میں روزگار کے زیادہ سرمایہ مواقع پیدا کریں تواس سے بے روزگاری میں بھی کمی آئے گی اور نوجوانوں کو جب کام ملے گا تو وہ کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کریں گے اس طرح باہر جانے کی کوشش کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس کے لئے ملک میں زیادہ سے زیادہ انڈسٹری لگانے اور ان کو سہولتیں دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان تمام مسائل کی جڑبے روزگاری کا عفریت ختم ہوسکے۔ ایک جانے والے بلال بٹ کہتے ہیں غیر قانونی طور پر ترکی ایران کے راستے یونان جانے والے جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ انسانی سمگلروں کے ایجنٹ ان کو سرحد بار چھوڑ کر رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگربذریعہ ہوائی جہاز بھی کوئی پاکستانی جائے توان کو شک ہو کہ یہ جعلی کاغذات پر سفرکررہا ہے تواس کو دوسرے جہاز میں سوار کرکے واپس ملک میں روانہ کردیتے ہیں البتہ جرمنی، آسٹریلیا میں جانے والوں کے ساتھ اتنا بے رحمانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح روس کا علاقہ بھی ہے۔ میں جب چیچنیا ائرپورٹ پر اترا اور میرا نام پوچھا اور مسلم ہونے کے ناطے بڑی عزت افزائی کی۔ میں ایک بار براستہ دبئی سے کینیڈا جارہا تھا کئی جگہ چیک کیا گیا، جہاز کی سیڑھیوں پر روک لیا حالانکہ میں گزشتہ پچیس تیس سالوں سے دنیا بھر کے ممالک میں جاتا رہا ہوں۔ دراصل ایشیائی ممالک سے جانے والوں پر شک بھی زیادہ کیا جاتا ہے اور ان کی چیکنگ اور کاغذات کی جانچ پڑتال بھی زیادہ کی جاتی ہے۔ رشید خان شاہد قریشی کہتے ہیں غیر قانونی طور پر جانے والوں کی لاشیں ویرانوں میں پڑی ہوتی ہیں اور ایجنٹ ان کے والدین سے مزید پیسوں کی مانگ کرتا ہے کہ اگر اتنے پیسے دو۔ اسی طرح عرب ملکوںمیں محنت کش خیرات مانگنے کے لئے لائنوں میں نظر آتے ہیں ۔ انسانی سمگلروں کے ہاتھوں اب تک لاتعداد گھرانے تباہ وبرباد ہو چکے، کوئی اپنے والد اور کوئی اپنے خاوند کی راہ تکتے تکتے بوڑھا ہو چکا ہے اور اس کو خبرہی نہیں کہ وہ کس حال میں ہے اور کہاں ہے۔ انسانی سمگلروں کے خلاف جب تک شکنجہ نہیں کسا جائے گا لوگوں کے گھر اسی طرح تباہ ہوتے رہیں گے۔ اس کے لئے فوری اور سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔