’’جناب رات کو پولیس لائنز میں سوتا ہوں۔ ساری رات ڈیوٹی کرنیوالے اہلکاروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ نیند پوری نہیں ہوتی پھر تہجد کے وقت مجھے لازمی اٹھنا ہوتا ہے‘‘۔ ایک باریش پولیس ملازم نے کہا۔ میں نے پوچھا بیوی بچے کہاں ہوتے ہیں؟ وہ بولا میرے بیوی بچے شیخو پورہ میں ہوتے ہیں۔ ’’کرائے پر مکان کیوں نہیں لے لیتے‘‘؟ میں نے ایک اور سوال کیا۔ ’’جناب اول تو مکان کا کرایہ اتنا ہے کہ میں متحمل نہیں سکتا۔ دوسرے یہ کہ اکیلے آدمی بالخصوص پولیس والے کو کوئی مکان کرائے پر دینا گوارہ نہیں کرتا‘‘۔ اسکی بات سن کر میں سوچ میں پڑگیا کہ عوامی سطح پر پولیس کے بارے میں تاثر کیا پایا جاتا ہے اور حقیقت میں پولیس کے مسائل کیا ہیں۔ بہت کم لوگ اس بات پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں کہ پولیں کے وسائل کتنے ہیں اور اس سے توقعات کی فہرست کتنی طویل ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب دنیا کے کئی ممالک سے بڑا صوبہ ہے۔ اٹک سے لیکر صادق آباد اور مشرقی سرحد سے لیکر کچے کے علاقے اور دریائے سندھ کے کنارے تک امن و امان کی صورتحال پنجاب پولیس ہی دیکھتی ہے ۔ اس وقت پنجاب پولیس میں ایک اہلکار 563 شہریوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے جبکہ لاہور میں 413 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار دستیاب ہے۔ یہ نفری معیاری پولیسنگ کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا تو ذکر چھوڑیں ہمسایہ ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی میں 198 شہریوں جبکہ ممبئی میں294 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار موجود ہے۔ لندن میں یہی تناسب 1:157 ہے۔ لاہورکی آبادی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 11لاکھ 26ہزار 285 ہے۔ علاوہ ازیں 40 ہزار کے لگ بھگ روزانہ دیگر شہروں سے لوگ یہاں آتے جاتے ہیں۔ اس آبادی کیلئے لاہور پولیس کی نفری 30ہزار ہے (ظاہر ہے کہ اس نفری میں ڈرائیور، کلرک اور دیگر نان کمبیٹ عملہ بھی شامل ہوگا)۔ اسکے برعکس دہلی جو لاہور جتنا ہی شہر ہے وہاں پولیس کی نفری 82 ہزار ہے۔ اب ذرا وسائل کی بات ہو جائے۔ پنجاب میں پولیس پر سالانہ 8.44 ڈالر فی کس اخراجات کئے جاتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں یہ تناسب 15.9 ڈالر، ترکی میں135 ڈالر اور لاہور میں 7.42ڈالر ہے جبکہ لندن پولیس کو فی کس اخراجات 754 ڈالر سالانہ دیے جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہماری پولیس فورس اپنی استعدادکار سے کہیں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لاہور کا شمار ایسے شہر وں میں ہوتا ہے جہاں احتجاج اور مظاہرے بھی معمول کی بات ہیں ۔ دہشتگردی یا بڑے حادثات کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔
یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ پولیس میں بعض ایسے عناصر ضرور ہیں جو محکمے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں لیکن ایسے افسر اور اہلکار بھی ہیں جو بدعنوانی کو اپنے لئے گالی سمجھتے ہیں۔ پولیس کا وجود آج بھی ایک عام شہری کیلئے طمانیت کا باعث ہوتا ہے۔ کسی ویران سڑک پر رات کو گزرتے ہوئے اگر نیلی بتی والی پولیس کی گشت گزرے تو دل میں فوراً سکون کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہی احساس تحفظ پوری دنیا میں پولیس کے وجود کی بنیادی وجہ ہے ۔ عام آدمی کو اندازہ نہیں کہ پولیس کلچر میں کتنی تبدیلی آ چکی ہے۔ افسوس منفی پہلو فوراً میڈیا اور سوشل میڈیا میں عام ہوجاتا ہے لیکن مثبت بات کو ’خبر‘ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ علاقے کے تھانیدار کو ہی پولیس سمجھتے ہیں اور اکثریت کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وفاقی سطح پر پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے نام سے ایک باوقار سروس بھی ہے جس میں انتہائی تربیت یافتہ اور کوالیفائیڈ آفیسر موجود ہیں۔ موجودہ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی ماڈرن پولیسنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے پولیس نظام میں بہتری کیلئے سائنسی خطوط پر اقدامات کی حوصلہ افزائی کی۔ان کا ایک اہم اقدام ہسپتالوں میں پولیس ڈیسک کا قیام ہے ۔ اب کسی واقعے یا حادثے کی صورت میں پولیس کارروائی موقع پرہی پوری کر لی جاتی ہے ۔ اسی طرح پنجاب بھر کے پولیس خدمت مراکز کو آپس میں مربوط کر دیا گیا ہے ۔ پولیس فورس کو شہریوں کے ساتھ اچھے اخلاق اور برتائو کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔ لاہور پولیس جسے پولیس آرڈر2002کے مطابق کیپٹل سٹی پولیس کہا جاتا ہے کا سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کے عہدے کا افسر ہوتا ہے جسے سی سی پی او کہا جاتا ہے۔ اس وقت بی اے ناصر سی سی پی او لاہور ہیں۔ سسٹم میں شفافیت اور جدت کی وجہ سے جرائم کی رپورٹنگ اور اندراج میں اضافہ ہوا جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جرائم بڑھ گئے ہیں۔ حالانکہ اگر پولیس کے نظام میں کمپیوٹرائز تبدیلی اور ماڈرن پولیسنگ کو مدنظر رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو جرائم پر کنٹرول کی شرح میں کئی گنا اضافہ دکھائی دیگا۔
دہشتگری کے گزشتہ عشرے نے پاکستان میں پولیس یا قانون نافذ کرنیوالے اداروںکیلئے چیلنجز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔ ایک طرف دہشتگردوں کے حملوں کی روک تھام تو دوسری طرف ان معاشرتی ناسوروں کی بیخ کنی۔ اس طویل جنگ میں پولیس کا محکمہ دیگر قانون نافذ کرنیوالے اور سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ رہا۔جہاں تک پولیس اہلکاروں کے رویے کا تعلق ہے تو اس کیلئے بلاشبہ پولیس کی کونسلنگ یا ریفریشر کورسز ہونے چاہئیں۔ سب سے اہم بات شہریوں کے ذہن سے پولیس کا انجانا خوف دور کرنا ہوگا۔ شہری پولیس کو اپنا دوست سمجھیں۔ یہ منزل بھی زیادہ دور نہیں۔
(نوٹ: فاضل کالم نگار پنجاب پولیس کے ترجمان ہیں)