اصل علم و عمل کے سوچنے کی بات…

Feb 20, 2019

ڈاکٹر اے آر خالد....

اس فانی زندگی میں کسی کے احسانوں کا بدلہ اتارنے کیلئے اپنی کامیابیوں میں اسکو حصہ دار قرار دینا بڑے دل گردے کا کام ہے اور یہ کام بہت ہی کم لوگوں نے اگر کہیں نظر آئے تو کیا ہوگا وگرنہ نفسانفسی اور آپادھاپی کے اس دور میں تو دوسروں کی محنت چرانے اور اسے اپنے نام کرنے والوں کا نام اور کام ہی سامنے آیا۔ اپنی اُخروی زندگی کے نیک اعمال و افعال میں کسی کو شریک کرنے یا حصہ دار تسلیم کرنے کی نہ کوئی مثل ہے اور نہ مثال کیونکہ ہر کوئی اپنے نامۂ اعمال کو لیکر اپنے خالق کے حضور پیش ہوگا۔نامۂ اعمال میں حصہ داری چہ معنی دارد؟ مگر معزز قارئین میں نے ایک ایسی مثال کو تلاش کرلی ہے بہت ہی معتبر اور بہت ہی منفرد اور اس مثال تلاش کرنے کا سبب میرے دوسرے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے روح رواں علامہ عبدالستار عاصم ہیں انہوں نے ’’وفیات مشاہیر لاہور‘‘ بھیجی جو ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی تحقیقی کاوش ہے اور اس پر کسی کالم میں کچھ لکھنے کی فرمائش کی حالانکہ وہ میری اس بُری عادت سے آگاہ ہیں کہ میں کہتا ہوں جو بھی بات سمجھتا ہوں جسے حق اور حوصلہ افزائی کے نام پر کتمان حق نہیں کرتا ۔گھسے پٹے تبصرے کرنے والوں کی ایک انجمن ہے جو اس کا رکن بن گیا اپنے حق میں جو چاہا لکھوا لیا، نہ لکھنے والے نے پڑھ کر لکھا نہ لکھوانے والے نے پڑھ کر لکھنے کیلئے انتظار کیا۔ اس قسم کے جملے بڑے بڑے ناموں کے حوالے سے آپ کو ملیں گے۔ آپ کے کام کی داد نہ دینا بد دیانتی ہوگی۔ بنیادی نوعیت کا کام کیا ہے۔ محققین کے لئے نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں۔ یہ کام اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔ آپ آج کے اس دور میں غنیمت ہیں۔ آپ کو اپنے کام سے عشق ہے وغیرہ وغیرہ اور جنہیں بڑے نام کہتے ہیں ان میں اکثریت بھی اس طرح کی دو نمبری کرکے کہ ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا مُلّا بگو‘‘ کی اسیری میں جکڑی ہوئی نظر آئیگی یا کسی ایک کے تبصرہ یا رائے کو پڑھ کر اس سے دو قدم آگے نکلنے کی کوشش اور اس طرح خود کو زیادہ معتبر بنانے کا عمل…؎
برہم جس اس خطا پر امیران شہر ہیں
ان جوہڑوں کو میں نے سمندر نہیں کہا
بہت ہی محبت اور معیار سے شائع ہونے والی اس کتاب میں جب میں نے بعض ناموں کا ذکر کیا کہ وہ اتنے غیر معروف نہ تھے کہ اسمیں شامل نہ ہوتے انہوں نے بعض ناموں کے شامل ہونے کے جس پر یقینی لہجے میں بات کی وہ بعد میں درست ثابت ہوئی مثلاً ضیاء الاسلام انصاری، ظہیر بابر، حمید جہلمی چونکہ یہ سارے لوگ صحافت کے درخشندہ ستارے رہے ہیں اسلئے ان کے بارے میں ابتدائی ورق گردانی میں جو سقم نظر آیا وہ دور ہوگیا البتہ اے پی پی کے ڈائریکٹر جنرل فاروق نثار کا نام نہیں وہ صحافت میں جتنے قدآور تھے کہ پاکستان کا مارشل لاء کا صدر جنرل ضیاء الحق خود انہیں اس عہدہ پر منتخب کرتا ہے۔ لاہور میں اے پی پی کے کافی عرصہ بیورو چیف رہے۔ ملنسار اور خوش اخلاق فاروق نثار کا نام نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسعود جاوید ہمدانی کے ساتھ حسین کسی نے لگایا وہ خود نہیں لگاتے تھے۔سپریم کورٹ کے اس درویش جج کا نام جس کو جنرل مشرف نے اپنی آمریت کا نشانہ صرف اس لئے بنایا کہ افتخار چودھری کو بے عزت کرکے اسکے منصب سے ہٹانے کے فیصلہ کو سپریم کورٹ کے جن سات ججوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ان میں چودھری اعجاز احمد مرحوم بھی شامل تھے۔ اپنے گھر کے باہر پولیس کی بھاری نفری کو نظرانداز کرکے جب وہ حسب معمول داتا صاحب جانے لگے تو کسی بڑے پولیس افسر نے کہا سر آپ گھر سے باہر نہیں جاسکتے آپ کو حکومت نے اپنے گھر میں نظر بند کردیاہے تو چودھری صاحب نے پولیس افسر کو زبردست ڈانٹ پلائی نعرہ مستانہ لگایا مجھے مشرف کا باپ بھی داتا صاحب جانے سے نہیں روک سکتا اور خود کار ڈرائیو کرکے چلے گئے۔ چودھری اعجاز احمد لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس چودھری افتخار (جہلم والے) کے بعد سب سے سینئر تھے۔ چیف جسٹس کے سپریم کورٹ جانے کی صورت میں وہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بن رہے تھے اس کیلئے انکی جنرل مشرف سے ملاقات ضروری سمجھی گئی جب چودھری صاحب نے انکار کیا تو کہا گیا آپ کے چودھری ظہورالٰہی سے بہت قریبی تعلق مراسم تھے چلیں انکے بیٹے چودھری شجاعت حسین سے مل لیں چودھری اعجاز احمد نے اس سے بھی انکار کردیا اور جنرل مشرف کی حکومت نے انہیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بنانے کی بجائے لاہور کے چیف جسٹس چودھری افتخار کو برقرار رکھا اور انہیں سپریم کورٹ بھیج دیا۔ چودھری اعجاز احمد پر اقبال عظیم مرحوم کا یہ شعر پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے…؎
منصب تو ہمیں بھی مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی
یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی بس اتنی سی مجبوری تھی
ڈینٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر حیدر ترمذی کا ذکر ہے لیکن کالج کے دوسرے پرنسپل ڈاکٹر وحید شیخ کو ماڈل ٹائون میں کئی دہائیاں گزارنے کے باوجود مشاہیر میں شامل نہیں کیا گیا نہ ہی اپنے دور کی معروف گائناکالوجسٹ پروفیسر شمیم وحید شیخ کو۔اس طرح لاہور کلینک والے ڈاکٹر عبدالقیوم کو جن کی وفات پر پیشہ وارانہ ماہرین نے کہا تھا آج میڈیکل کا ایک باب بند ہوگیا مشاہیر میں شامل نہیں کیا گیا۔
مجھے سب سے زیادہ صدمہ پروفیسر عبدالحمید صدیقی کا نام نہ دیکھ کر ہوا وہ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ اور پھر اسلامیہ کالج لاہور میں معاشیات کے پروفیسر تھے وہ 26 سال تک جماعت اسلامی کے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے اشارات یعنی اداریئے لکھتے رہے انکے موضوعات میں تنوع تھا۔انتہائی پرتاثیر تحریر۔ حدیث کی کتاب مسلم کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنیوالے پہلے عالم دین تھے۔ قرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ 18 اپریل 1978ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ جو بھی ترجمہ کیا، ایک ایک لفظ روح میں اترتا ہے۔ سیرت طیبہ پر اپنی بہت ہی خوبصورت کتاب ''The Life of Muhammad'' بیمثل ہے۔
دیگر کتب میں ’’خدا موجود ہے‘‘۔ اسلام کا روشن مستقبل۔ ایمان اور اخلاق۔ اسلام کا فلسفہ تاریخ۔ اسلام اور تھیوکریسی، اسلام اور معاشی تحفظ، انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام انسانیت کی تلاش مذہب اور تجدید مذہب، عقیدۂ ختم نبوت، چند عمرانی پہلو، انگریزی نظام تعلیم، اساسی تخیل، پس چہ بائد کرد؟ وغیر ہ وغیرہ اپنی اثر پذیری اور مقبولیت کے حوالے سے اہل مذہب اور اہل علم دونوں کا قابل فخر حوالہ تھیں۔
جماعت اسلامی نے پروپیگنڈے میں اپنی مہارت اور ابلاغ کے حوالے سے مضبوط نظام ہونے کے باوجود اس مرد درویش کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہچانا اور اس طرح خدمت دین میں انکے کام کو آگے نہیں بڑھایا کہ کوئی ڈاکٹر منیر احمد انہیں نظرانداز کر سکے البتہ جماعت کے بانی امیر مولاا ابوالاعلی مودودی نے جنکی اپنے عملے کو یہ ہدایت تھی کہ اگر عبدالحمید صدیقی میری کسی تحریر میں کوئی رد و بدل کریں تو اسے مجھے دکھانے یا میری اپروول کی ضرورت نہیں۔ مولانا نے اپنے اس بہت ہی مومن ساتھی کے انتقال پر وہ بات جسے میں نے مثال کہہ کر کالم کی ابتدا کی تھی وہ لکھتے ہیں ’’آج اس مجسمئہ خیر انسان نے وفات پائی جو ایک سچے مسلمان کی زندگی کا نمونہ تھی… اس روز وہ شخص دنیا سے اٹھ گیا جو دین و دنیا کے علوم کا جامع تھا میں نے جو کچھ بھی تھوڑی بہت دین کی خدمت کی ہے اسکے اجر میں وہ میرے ساتھ شریک ہیں‘‘
کسی کو اجر میں شریک کرنے کی بات کرکے مولانا مودودی نے عبدالحمید صدیقی مرحوم مغفور کی ساری خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرکے ایک نئی مثال قائم کی۔ صدیقی صاحب کی عالمانہ تکنیک کا ایک حوالہ تو وہ انگریز تھا جو پنجاب لائبریری میں انکے پاس کئی دن آ کر اسلام کے مختلف پہلوئوں کو سمجھتا رہا اور آنحضرتﷺ کی کثرت ازدواج پر صدیقی صاحب نے جب یہ کہا کہ میری بیوی مشرقی اور مذہبی ماحول کی ہے جہاں خاوند کو سر کا تاج سمجھا جاتا ہے میرے علم مشکل سے واقف ہے میں اپنی فیملی کی ساری جائز ضرورتیں پوری کرتاہوں مگر وہ کئی دفعہ مجھے کہہ دیتی ہے ’’دیکھا ہے بڑے عالم کو‘‘ قربان جائوں اس ہستیﷺ کے جن کی ہر زوجہ محترمہ ایک سے بڑھ کر ایک آپ پر جان نچھاور کرتی تھیں اس انگریزی محقق نے پاکستان میں علم و ادب کے بارے صرف دو افراد کا ذکر کیا علامہ اقبال اور عبدالحمید۔ صدیقی جماعت اسلامی کی خاطرایوب خاں کے دور میںکالج کی ملازمت اور جماعت اسلامی کی وابستگی میں سے ایک کے انتخاب پر نوکری کو لات مارنے والے کے پاس جب ’’لائف آف محمدﷺ‘‘ کی بے پناہ پذیرائی کے بعد جماعت کے بعض لوگ آئے اور فرمائش کی کہ مولانا مودودی سے اتنی قربت کے بعد انکی سیرت پر آپ سے بہتر کوئی نہیں لکھ سکتا تو ساری زندگی مولانا کا احترام کرنے اور ساتھ چلنے والے اس درویش منش صوفی کا جواب تھا۔ سچی بات ہے رسول اللہﷺ کی سیرت لکھنے کے بعد میری نظر میں کوئی دوسرا انسان نہیں جچتا یہ کام کسی اور سے کروا لیں گویا کہہ دیا دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ۔ میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفیﷺ کے بعد۔

مزیدخبریں