اسلام آباد ( نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاوئنٹس کیس میں فیصلہ کے خلاف سابق صدر آصف علی زرداری ، فریال تالپور، بلاول بھٹو، انور مجید اور اومنی گروپ کے مالکان کی نظر ثانی درخواستیں مسترد کردیں ، عدالت نے مراد علی شاہ کی متفرق درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں نظر ثانی کی درخواست میں دلائل دینے کی اجازت دیدی، عدالت نے قراردیا ہے کہ نظر ثانی درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کریں گے۔عدالت نے آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کی معاملہ کی سماعت کیلئے لارجر بینچ کی تشکیل کی درخواستیںبھی مسترد کردی ہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کچھ غلط نہیں کیا تو مسئلہ کیا ہے، کیا سارا ملک خاموش ہوجائے؟ معاملہ کی تفتیش اور تحقیق ہوگی، عدالت کے پاس جے آئی ٹی بنانے کا اختیار ہے، ہوسکتا ہے نیب ریفرنس فائل ہی نہ کرے، ہوسکتا ہے آپ بری ہوجائیں۔ انہوں نے ریمارکس دیئے اگر اداروں پر قبضہ کرلیا جائے تو ہم بے بس نہیں، ابھی آپکے موکل ملزم بنے ہی نہیں، انشاء اﷲ آئین کا تحفظ کرینگے، سماعت میں 99.9فیصد بحث ان چیزوں پر تھی جو فیصلے میں نہیں تھا۔ سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے بیرون ملک رقم منتقل کیے جانے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سابق صدر کے وکیل لطیف کھوسہ نے متفرق درخواست دائر کی۔ درخواست میں عدالتی دائرہ اختیار کو بنیاد بنایا گیا جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نا ہونے پر بھی سوال اٹھائے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا سابق چیف جسٹس کے فل کورٹ ریفرنس کے موقع پر اس پر بات ہوئی تھی اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار بھی رائے دے چکے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججز بھی ازخود نوٹس اختیار کے تعین کے حق میں ہیں اس لیے تضاد کو دور کرنے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔ آصف زرداری کی جانب سے دائر درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا۔ دوران سماعت اومنی گروپ کے انور مجید اور عبد الغنی مجید کے وکیل شاہد حامد نے مؤقف اختیار کیا میرے مؤکلان 15 اگست سے گرفتار ہیں، انور مجید دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کراچی کے سب سے اچھے ہسپتال میں داخل ہیں۔ شاہد حامد نے کہا چیئرمین نیب کو اجازت دی جائے کراچی میں ریفرنس دائر کر سکیں، اس معاملے میں ہر چیز کراچی سے متعلق ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کے تمام دلائل قبل از وقت ہیں۔ وکیل شاہد حامد نے کہا میرے مؤکلان سے متعلق حتمی چالان عدالت میں پیش نہیں کیا جا رہا۔ سندھ حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل بھی نظرثانی اپیل میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا عدالت نے سندھ حکومت کے بارے میں کچھ کہا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا نہیں سندھ حکومت کے بارے میں تو نہیں کہا۔ چیف جسٹس نے کہا اگر آپ کی نظر ثانی درخواست منظور نہ ہوئی تو آپ پر جرمانہ کریں گے، ایک صوبائی حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا 7 جنوری کے زبانی حکم نامے میں کہا گیا وزیراعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل اور جے آئی ٹی سے ہٹا دیں، تحریری حکم نامے میں نام صرف ای سی ایل سے ہٹایا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا زبانی اور تحریری حکم نامہ ایک ہی تھا، ای سی ایل سے نام ہٹانے کا کہا تھا تاکہ وزیراعلیٰ پر سفری پابندیاں نہ لگیں۔انہوں نے کہا اگر وزیراعلیٰ کے خلاف مواد ہو تو ای سی ایل پر ڈالیں، یہ آرڈر تھا۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا تفتیش کاروں کو رینجرز کی سکیورٹی مہیا کرنے کا کہا گیا، حالانکہ سکیورٹی مہیا کرنے کی درخواست سپریم کورٹ میں نہیں آئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ڈی جی ایف آئی اے نے خود کہا ان کے تفتیش کاروں کو خطرہ ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا سکیورٹی مہیا ہونے کے بعد تفتیش کراچی سے کیوں منتقل کی گئی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تفتیش کار، گواہان سب نے کہا سندھ میں ان کو خطرہ ہے۔مراد علی شاہ کے وکیل مخدوم علی خان نے روسٹرم پر پیش ہو کر مؤقف پیش کیا میرے مؤکل کو کبھی تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا، بغیر سنے ان کے بارے میں آبزرویشن آئیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اسی لیے ہم نے نیب کو تفتیش کے لیے کہا ہے۔سپریم کورٹ نے مراد علی شاہ کو نظرثانی اپیل دائر کرنے کی اجازت دیدی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے بلاول بھٹو کے وکیل خالد جاوید سے استفسار کیا آپ اس مقدمے میں بطور اٹارنی جنرل پیش ہو چکے ہیں۔خالد جاوید نے کہا میں کبھی پیش نہیں ہوا، میرے موکل کو بھی سنا نہیں گیا۔انہوں نے کہا زبانی حکم میں ای سی ایل اور جے آئی ٹی سے نام ہٹانے کا کہا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بلاول کو تو ابھی کال اپ نوٹس بھی نہیں گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت مفروضوں پر کام نہیں کر سکتی، مستقبل کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے آصف زرداری، فریال تالپور اور اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید کی نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا آج جتنی بھی بحث ہوئی وہ سب خدشات پر ہوئی۔نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن کے مطابق سابق صدر کے وکیل لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا فل کورٹ ریفرنس میں آپ نے تاریخی جملے ادا کیے تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے فل کورٹ ریفرنس کی تقریر عدالتی مثال نہیں ہوتی۔ یہ مقدمے کی دوبارہ سماعت یا اپیل کی سماعت نہیں ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا فیصلے میں کیا غلطی ہے براہ راست اس کی نشاندہی کریں اور نظر ثانی کا دائرہ ذہن میں رکھیں۔ نظر ثانی کے دائرہ پر 50 سے زائد عدالتی فیصلے موجود ہیں۔لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب میں آپ نے سوموٹو اختیارات کے بارے میں بات کی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تقریر نظیر نہیں ہوتی۔ آپ آصف علی زرداری کی نظر ثانی اپیل پر بات کریں۔ یہ نظر ثانی اپیلیں ہیں آپ کو اس میں غلطی بتانا ہے۔لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی بھی مقدمہ درجہ بدرجہ نچلی عدالت سے اوپر آتا ہے جبکہ اسلامی تصور بھی ہے اپیل کا حق ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے سارا مواد رکھا گیا اور انہیں کہا گیا ریفرنس بنتا ہے تو بنائیں اور اگر نہیں بنتا تو نہ بنائیں۔ ہم اس معاملے میں مداخلت کیوں کریں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اس مقدمے میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ ہم نے تو صرف متعلقہ اداروں کو تفتیش کے لیے کہا لیکن اس سے آپ کی اپیل کا حق کیسے متاثر ہوا۔ آپ اپنے قانونی نکات دیں، ہم جائزہ لیں گے قانونی نکات نظرثانی کے دائرہ کار میں آتے ہیں یا نہیں۔آصف زرداری کے وکیل نے کہا ہمارا اگلا اعتراض یہ ہے جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بنتی ہے جبکہ جے آئی ٹی معاملے پر نواز شریف کی نظر ثانی درخواست مسترد ہو چکی ہے اور اس مقدمے کے حقائق نواز شریف کے مقدمے سے مختلف نہیں ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر نے لارجر بینچ بنانے کی درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کیس کے مدنظر لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔ این این آئی کے مطابق پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے جعلی اکائونٹس کیس کے حوالے سے کہا ہے ایک معاملے کی تحقیقات دو اداروں کو نہیں کرنی چاہئیں،جب کراچی کی بینکنگ کورٹ میں کیس چل رہا تھا تو سپریم کورٹ لانے کی کیا ضرورت تھی۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے زبانی احکامات کو تحریری حکم کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا ۔ بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا زبانی حکم دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامے میں بلاول کا نام نکلوانے کا ذکر نہیں۔نیب کی تحقیقات کراچی میں ہی ہونی چاہئیں۔ عدالتی کارروائی پر سوالات تو اٹھتے ہیں۔ صحافی نے سوال کیا آپ کیا سمجھتی ہیں نظرثانی اپیل میں مثبت فیصلہ آئیگا۔ شیری رحمن نے کہاہمیں پوری امید ہے سپریم کورٹ نظر ثانی اپیل میں مثبت فیصلہ آئیگا۔ ساری تحقیقات سندھ میں ہوئی اور اب اس کو راولپنڈی کسے لایا جا رہا ہے۔ جے آئی ٹی کا دائرہ اختیار کراچی تک تھا۔ پیپلزپارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا ہے پی پی قیادت کی نظرثانی کی درخواستیں مسترد ہونا باعث تشویش ہے۔بے نامی اکاونٹ کیس میں نظرثانی درخواستیں مسترد ہونے پر پیپلزپارٹی کی رہنما نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا پی پی قیادت کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا بے نامی اکاونٹ کیس کو چھ ماہ ہوگئے، بلاول بھٹو کے موقف کو سنا تک نہیں گیا، چیف جسٹس کے احکامات اور تحریری عدالتی حکم میں فرق بھی سوالیہ نشان ہے۔ آصف زرداری آج اسلام آباد اور بلاول بھٹو لندن میں پریس کانفرنس کریں گے۔ احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا ڈرامہ بے نقاب ہوچکا، پی پی قیادت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، جہاں کا مقدمہ ہے، وہیں سنا جائے کا قانون پی پی قیادت کے لئے کیوں نہیں؟۔