جسٹس قاضی فائز کیس میں حکومت کی طرف سے بنچ پر الزام، اٹارنی جنرل سے جواب طلب

اسلام آ باد ( خصوصی رپورٹر)جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے بینچ پر الزام لگانے پر اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ عدالت کا کہنا ہے اگر اٹارنی جنرل شواہد نہیں دے سکے تو تحریری معافی ما نگیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ کیا کوئی شخص اپنی اہلیہ اور بچوں کے غیر ملکی اثاثوں پر قابل احتساب ہے، کیا یہ ایک ایف آئی آر ہے یا صدارتی ریفرنس ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی، اٹارنی جنرل انور منصور نے دلائل دیتے ہوے موقف اپنایا کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ذمہ داری ہے جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پہلے ہمیں کیس کا بتا دیں، بظاہر تو مقدمہ ٹیکس کا لگتا ہے، گزشتہ روز بھی ادھر ادھر کی باتیں ہوئی، ہمیں کیس پر فوکس کرنا ہے، کس لفظ کی کیا تعریف ہے یہ مقدمہ نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی کو برطانیہ کی جائدادیں گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیے تھیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ دکھا دیں گے اہلیہ کے اثاثے دراصل معزز جج کے اثاثہ ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہاحقائق کا جائزہ جوڈیشل کونسل نے لینا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا مس کنڈکٹ کے ساتھ منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی ہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہادرخواست گزار نے بدنیتی کا الزام لگایا، ہمیں یہ بتا دیں کہ2010کے عدالتی فیصلے سے اختلاف کیسے کریں، اٹارنی جنرل نے کہاعدالت کے سوالات کے آئندہ تاریخ پر جواب دونگا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہایہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنا دلائل دیں، اٹارنی جنرل نے کہا تحریری دلائل نہیں دے سکتا، اٹارنی جنرل نے کہاتین جائیدادیں خریدنے کے لئے پیسہ ملک سے باہر گیا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاایسٹس ریکوری یونٹ کا کام تھا کہ آپ کو قانون بتاتا۔ آپ تیاری کے بغیر عدالت آگئے ہیں۔ آپ ہمارا وقت خوبصورتی کیساتھ ضائع کررہے ہیں۔ کل اپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے۔ وہ قانون بتائیں اس قانون کا اطلاق ججز پر ہوتا ہے یہ بھی بتا دیں۔ عدالت میں اپنے حکم نامہ میں لکھوایا کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اس لئے اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، تاہم اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں،امید کرتے ہیں مطلوبہ دستاویزات پیش کی جائیں گی، عدالت نے کیس کی مزید سماعت سوموار تک ملتوی کردی۔دریں اثناء پاکستان بار کونسل نے اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی۔سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں اٹارنی جنرل کی طرف سے ججز پر لگائے گئے الزامات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے اس الزام سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ججز کی جاسوسی کا عمل اب جاری ہے، اٹارنی جنرل نے جان بوجھ کرکھلی عدالت میں یہ بات کی اگر اس بیان میں صداقت ہوتی تو اٹارنی جنرل 133 دن تک خاموش نہ بیٹھتے،اٹارنی جنرل کا بیان سپریم کورٹ کو دباو میں لانے، دھمکانے اوربلیک میل کرنے کی کوشش ہے، اٹارنی جنرل نے جب یہ بات کہی تو اس وقت وزیر قانون فروغ نسیم بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، بطور وزیر قانون نے نہ اٹارنی جنرل کو روکا اورنہ ہی مداخلت کی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں عدلیہ مخالف بیان پر اٹارنی جنرل پاکستان کیپٹن (ر)انور منصورخان کے استعفی کا مطالبہ کردیا ہے۔ صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید قلب حسن نے کہا ہے کہ انہیں اٹارنی جنرل انور منصور خان کے وفاقی وزیر قانون کی موجودگی انتہائی قابل اعتراض بیان پر بریف کیا گیا اگرچہ وہ اب خارج کردیا گیاہے جو اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کے دوران دیا ۔ سید قلب حسن شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کسی غلط فہم میں نہ رہے، ملک کی بارکسی جج کے خلاف بدنیتی پرمبنی جھوٹے الزامات کے ذریعے اعلی عدلیہ کی آزادی ، عظمت اور وقارکے خلاف حکومت کی ہر مذموم کوشش بے نقاب کرے گی ۔سپریم کورٹ بار نے مطالبہ کیا ہے کہ اٹارنی جنرل فوری طور پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگیں اور فوری طور پر عہدے سے مستعفی ہوںبصورت دیگر باراٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرنے سے دریغ نہیں کرے گی۔صدر بار نے کہا ہے کہ وزیر قانون بھی منگل کے روز ہونے والے واقعہ کے برابر ذمہ دار ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن