یو این سیکر ٹری جنرل کا کشمیر کے لیے اعلان حق

Feb 20, 2020

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

سیکرٹری جنرل یو این جناب انتونیو گوتریس پاکستان کا چار روزہ دورہ مکمل کر کے رخصت ہو گئے ، وہ اپنے پیچھے بہت سی یادیں چھوڑ گئے۔ انہوںنے جس بے باکی سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔ اس پر پاکستانی عوام ان کے بے حد مشکور ہیں۔ ایک عرصے کے بعد کسی یو این آفیشل نے کشمیر کو متنازعہ مسئلہ قراردیااوراس کا حل سلامتی کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں کرنے کی تجویز دی۔ ان کی یہ بات بھارت کو قطعی پسند نہیں آئی ۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کو پسند نہیں آئی جن کا الزام ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کاز کے لئے کچھ نہیں کیا۔ وزیر اعظم نے تو بھارت کو ہفتہ رواں کے اندر دو بار زچ کر کے رکھ دیا ، ایک بار تو ترک صدر نے کشمیر کے حق میں آواز بلند کی اور اس کی سزا بھارت میں متعین ترک سفیر کو بھگتنا پڑی۔ بھارت نے انہیں دھمکی دی کہ آئندہ ترکی نے کشمیر کانام لیا تو سفیر کو بھارت سے نکال دیا جائے گاا ور ترکی سے تجارت ختم کر دی جائے گی مگر ترکی کو ان دھمکیوں کی کوئی پروا نہیں۔حالانکہ صرف اسی سال بارہ لاکھ بھارتی شہری ترکی کی سیاحت کے لئے پر تول رہے ہیں، بھارت کو یو این سیکرٹری جنرل کی بات بھی ناگوار گزری اور اس نے پرانی رٹ لگائی کہ کشمیر اس کا داخلی مسئلہ ہے اور کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی مگر یو این او کو بھارت کی بڑھکوں کی پروا نہیں، اس کا کام ہی عالمی تنازعات کو حل کرنا ہے اور کشمیر ا س وقت فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جنرل اسمبلی کی تقریر کی طرف پھر متوجہ کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی‘ ہٹلر اور مسولینی کی طرح فاشسٹ نظریات کا حامل ہے ،۔ وہ نسلی برتری کا قائل ہے اور ہندووں کے سوا سبھی کو ملیا میٹ کرنا چاہتا ہے۔
سیکرٹری جنرل بنیادی طور پر افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کے چالیس برس مکمل ہو نے کی تقاریب میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے۔ انہوںنے پاکستان کی فراخدلی اور مہمان نوازی کی کھل کر تعریف کی۔ وہ افغان مہاجرین کے خیموں میں بھی گئے اور ان کے لئے کئے گئے انتظامات کی تحسین کی۔
کس قدر دکھ کی بات ہے کہ افغان حکومت نے اس موقع پر بھی اپنے خبث باطن کااظہار کرنے سے گریز نہیں کیاا ور افغان نائب صدر نے الزام لگایا کہ پاکستان نے افغان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کر رکھی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے ان ریمارکس پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور افغان صدر سے کہا کہ وہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو واپس لے جائیں ۔ پھر آپ کو پاکستان سے ا س شکائت کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ افغان دہشت گرد انہی کیمپوں میں چھپتے ہیں جن میں سے ایک ایک کی تلاشی پاکستان نہیں لے سکتا۔ در اصل افغانستان کو بھارت جو پٹی پڑھاتا ہے وہی دہرا دی جاتی ہے۔ پاکستان بنا تو پہلے افغان سفیر نے قائد اعظم کو اسناد سفارت پیش کیں تو اسی چڑ چڑاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا، پاکستان دشمنی ا فغانستان کی گھٹی میں کیوں پڑی ہے حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر افغان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو ا س سے سب سے زیادہ خوشی پاکستان کو ہوگی۔ جہاں تک مہاجرین کا تعلق ہے تو اتنی بڑی تعداد کو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں پال رہا۔ پاکستان نے مسلسل چالیس برس سے ان کی میزبانی کی ہے اور اس کے لئے بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ پاکستان کو کلاشنکوف مافیا کا تحفہ ملا۔ ہیر وئن مافیا کا تحفہ ملا اور فرقہ پرستی کا تحفہ ملا جس کی وجہ سے پاکستان کا اپنا امن تبا ہ و برباد ہوتارہا مگر اب افواج پاکستان نے بیس برس کی قربانیوں کے بعد دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہ کارنامہ صرف پاک فوج کے حصے میں آیا ہے ۔دنیا کی افواج اس کے لئے ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
عالمی امن کے لئے پاکستان کا ایک اور قابل فخر کارنامہ یو این امن افواج میں شرکت اور بھر پور کامیابی کا حصول ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے کانگو میں امن فوج میںحصہ لیا۔ سیکرٹری جنرل نے جی ایچ کیوجا کر جنرل باجوہ اور پاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔ ا س موقع پر سیکرٹری جنرل کو امن فوج میں پاک فوج کی شرکت پر تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔ کانگو سے لے کر بوسنیا تک پاک فوج نے معرکے مارے۔، قربانیاں بھی دیں اور یو این سے تمغے بھی حاصل کئے۔
سیکرٹری جنرل نے دیگر اہم ترین تقاضوں کی طرف بھی اپنے خطابات میں نوجوانوں کی توجہ مبذول کروائی۔ خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی کاحصول۔ماحولیاتی تبدیلیاں اور مذہبی ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی مسائل نے پریشان کر رکھا ہے۔مختلف بیماریاں سر اٹھا رہی ہیں۔ اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کا تدارک کرنانئی نسل کا فرض اولیں ہے ۔ سیکرٹری جنرل نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ جدید علوم پر دسترس حاصل کریں اور ملکی اور عالمی مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہیں۔
میرے خیال میں سیکرٹری جنرل کے دورے میں کشمیر کازکی حمائت اور افغان مہاجرین کے لئے پاکستان کی کوششوں کی تحسین کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ خطے میں کشمیر اور افغان اشوز کی وجہ سے بد امنی پھیلی ہوئی ہے اور قیام امن کے لئے ان دو مسائل کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سیکرٹری جنرل اور وزیر اعظم پاکستان نے ان مسائل پر بھر پور اظہار خیال کیا۔ میںنہیں سمجھتا کہ سیکرٹری جنرل یو این جناب انتونیو گوتریس کا یہ دورہ کسی بھی لحاظ سے دور رس نتائج کا حامل نہیں ۔ یہ کوئی رسمی دورہ نہیں تھا اور نہ سیکرٹری جنرل نے کوئی رسمی بات کی بلکہ انہوںنے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قیام امن کے لئے نیک تمنائوں اکاظہار کیا۔سیکرٹری جنرل کے اس دورے نے پاکستان کی سفارتی تنہائی کے الزام کو بھی باطل ثابت کر دیا ہے۔

مزیدخبریں