اسلام آباد (نیوزڈیسک) ڈاکٹرعلی یاسر دھیمے لہجے کے خوبصورت شاعر تھے، وہ سیلف میڈ اور عملی زندگی میں خوش گفتار اور نفیس انسان تھے، وہ دفتری کام کو ذاتی کام سمجھ کر انتہائی تندہی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔ان خیالات کا اظہارغزالہ سیفی، پارلیمانی سیکرٹری برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ڈاکٹر علی یاسر ریفرنس میں کیا۔مجلس صدارت میں افتخار عارف،محمد اظہار الحق، علی اکبر عباس اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین محمد سلمان نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ریفرنس میں علی یاسر کے صاحبزادے عمار علی یاسر بھی موجود تھے۔ ممتاز دانشور اور اہل قلم نے ڈاکٹر علی یاسر کی شخصیت اور فن کے حوالے سے گفتگو کی۔ نظامت عابدہ تقی نے کی۔ریفرنس میں نیشنل بک فائڈیشن کی طرف سے ڈاکٹر علی یاسر کی نئی شائع ہونے والی کتاب ’’ـتصور فنا و بقا اُردو غزل کے تناظر میں ‘‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے پروفیسر جلیل عالی کو پیش کی ۔پروگرام کے اختتام پر دعائے مغفرت کی گئی۔افتخار عارف نے کہا کہ علی یاسرکی موت کی خبر نے رْلا دیا ہے۔ محمد اظہار الحق نے کہا کہ ہم نے علی یاسر کو نہیں اپنے مستقبل کو کھو دیا ہے۔ علی اکبر عباس نے کہا کہ علی یاسراس شہر کے لیے اللہ کی ایک نعمت کے طور پر آیا تھا۔ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے کہا کہ زندگی کے منظرنامے سے علی یاسر کا یوں اُٹھ جانا ایک دردناک کہانی اور سانحہ ہے ۔ ڈاکٹر علی یاسر اکادمی ادبیات کے محنتی افسر اور مشہور شاعر تھے۔ اشارہ کے چیئرمین جنید آذر نے کہا کہ علی یاسر نے ادب کے فروغ میںجو کردار ادا کیا وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ اس موقع پرڈاکٹر راشد حمید، جلیل عالی ،حسن عباس رضا، شکیل اختر،پروین طاہر، فرحین چوہدری، محبوب ظفر، انجم خلیق اور دیگر نے ڈاکٹر علی یاسر کے فن اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔