سعودی عرب میں "العلا" کا علاقہ اپنی آغوش میں ایسے مقامات رکھتا ہے جو جزیرہ نما عرب کے اہم ترین آثار قدیمہ میں سے شمار ہوتے ہیں۔ یہاں پہاڑوں اور وادیوں کے امتزاج پر مشتمل قدرت کا حسن نظر آتا ہے۔ اس کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہاں کے پہاڑوں پر کندہ قدیم نقوش تہذیبی تاریخ کے ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان میں نبطی، لحیانی، دادانی، ثمودی اور معینی تہذیبیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں عربی اور اسلامی نقوش قدرت اور تاریخ کے درمیان منفرد مرکب کا مظہر ہیں!سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مملکت سعودی عرب نے علاقے کی تاریخی اہمیت کی حقیقت جان لی ہے۔ اس سلسلے میں العلا ضلع کی رائل اتھارٹی نے مختلف نوعیت کے منصوبوں کے ذریعے یہاں موجود تاریخی ورثے کے انکشاف پر کام کیا۔ اس حوالے سے آخری کاوش طنطورہ ونٹر فیسٹول ہے جو مسلسل دوسرے سال منعقد ہو رہا ہے۔
رائل اتھارٹی نے اس فیسٹول کے ذریعے علاقے کے حقیقی ورثے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا مقصد ماضی اور حال کے بیچ ایک پُل قائم کرنا اور علاقے میں مدفون تاریخی رازوں کو منظر عام پر لانا ہے۔
رائل اتھارٹی یہاں آثار قدیمہ سے متعلق ایک جامع سروے کے اجرا پر کام کر رہی ہے۔ ساتھ ہی وہ العلا کے علاقے کے آثار قدیمہ کا نقشہ از سر نو تیار کرنے کی خواہاں ہے تا کہ یہاں کی انتہائی اہمیت کی حامل آثاریاتی تاریخ کا خزانہ واضح ہو کر سامنے آ سکے۔
العلا اُن علاقوں میں سے ہے جس کی تاریخ پتھروں کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں کی سرزمین پر دو اہم عوامل کارفرما رہے۔ ایک تو میٹھے پانی کی فراہمی اور دوسرا زمین کی زرخیزی اور قابل زراعت ہونا۔ ان دونوں باتوں نے تاریخ کے اوائل سے ہی العلا کے علاقے کو ممتاز حیثیت بخشی۔
العلا میں سامنے آنے والے آثار قدیمہ کا تعلق تاریخ کے مختلف ادوار سے ہے۔ کنگ سعود یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی مطالعاتی تحقیقات کے نتائج کے مطابق العلا کی تاریخ کی ابتدا دو لاکھ سال قبل مسیح سے ہوتی ہے۔
اس کے بعد 5 ہزار سے 2 ہزار سال قبل مسیح کے درمیان کا عرصہ آتا ہے۔ اس کا ثبوت یہاں مدفون اشیاء ہیں جن کا تعلق برنجی دور یعی 2400 برس قبل مسیح سے ہے۔