سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا، کسی پارٹی نے الائنس کرنا ہے تو کھلے عام کرے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سینٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ سینٹ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان بین الصوبائی اتحاد بھی ہو تو ووٹ کو خفیہ رکھنا کیوں ضروری ہے؟۔ جبکہ رضا ربانی نے دلائل میں مؤقف اپنایا ہے کہ ایوان بالا کے قیام کا مقصد صوبوں کو وفاق میں یکساں نمائندگی دینا ہے۔ ضرروی نہیں کہ جس جماعت کی وفاق میں حکومت ہے صوبوں میں بھی اس کی حکومت ہو۔ سینٹ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینٹ میں نشستوں کا تناسب تبدیل ہوسکتا ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا۔ کسی جماعت نے انتخابی اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔ رضا ربانی نے دلائل میں کہا پارلیمانی نظام میں قومی اسمبلی اور سینٹ کبھی اتفاق رائے سے نہیں چلتے۔ اگر ایک بل ایوان زیریں سے منظور ہوجائے تو ایوان بالا سے وہ مسترد بھی ہوجاتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا ذکر آرٹیکل 51 اور 59 دونوں میں ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا۔ جس پر رضا ربانی نے  موقف اپنایا کہ متناسب نمائندگی کی عدالت جو تشریح کررہی ہے وہ آئیڈیل صورتحال میں ہوتی ہے لیکن سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے۔ رضا ربانی نے ایک موقع پر کہا کہ عام تاثر یہ ہے کہ رکن پارلیمنٹ اچھا وکیل نہیں ہوتا۔ جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، آپ اچھے وکیل ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی جماعت کے صوبائی اسمبلی میں دو ممبر ہوں تو کیا وہ حلیف جماعتوں سے اتحاد قائم کر سکتی ہے۔ ہمیں متناسب نمائندگی سے متعلق بتائیں؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہر سیاسی جماعت کی عددی تعداد کے مطابق سینٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے۔ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کے خلاف جائے۔ اتحادی جماعتوں کی اپنی طاقت ہو سکتی ہے۔ نظام جو بھی اپنایا جائے سینٹ میں صوبائی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔1973  کا آئین بنتے وقت وزیر قانون نے کہا صوبائی نشستوں کی سینٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے۔ فاضل جج نے استفسار کیا کہ نمائندگی متناسب ہے تو ووٹ سیکرٹ رکھنے کے پیچھے کیا منطق تھی؟۔ رضا ربانی نے جواب میں کہا کہ شاید سیکرٹ اس وجہ سے رکھا گیا کہ کسی سیاسی جماعت کا صحیح تناسب نہ آ سکے۔ اگر اسمبلیوں میں موجود پارٹی سٹرنتھ  کے اصولوں پر عمل کرنا ہے تو پھر پارٹی لسٹ ہونی چاہیے تھی۔ رضا ربانی نے سوال اٹھایا کہ پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) اتحادی ہیں، تحریک انصاف چار یا پانچ سینیٹر میں سے ایک سینیٹر ق لیگ کو دے رہی ہے،کیا تحریک انصاف کے ایک سینیٹر کم ہونے سے متناسب نمائندگی کی عکاسی ہوگی؟۔ رضا ربانی نے کہا سیاسی اتحاد خفیہ نہیں ہوتا لیکن اگر انفرادی ووٹر چاہے تو اپنا ووٹ خفیہ رکھ سکتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی دلیل کو دوسرے انداز سے بھی بیان کر سکتے ہیں۔ ایک صوبے میں اکثریتی جماعت اتحادی جماعت سے دوسرے صوبے میں سیٹ کا تبادلہ بھی کرسکتی ہے۔ فاضل جج نے سوال اٹھا یا کہ تحریک انصاف اور ق لیگ کا پنجاب میں ابھرتا ہوا اتحاد ہے، اس پر میں مزید بات نہیں کرسکتا لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اتحاد کی صورت میں سینٹ کا ووٹ کیوں خفیہ ہوتا ہے۔ وکیل الیکشن کمشن کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ووٹرز کے لیے تیار کردہ ضابطہ اخلاق کی کاپی جمع کرا چکے ہیں۔ بعدازاں کیس کی مزید سماعت پیر 22  فروری تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...