حکومت کی پہلی ترجیح ڈیم، دوسری سی پیک، دشمن بلوجستان، گلگت بلتستان میں متحرک: اسد عمر

اسلام آباد (جاوید صدیق، عترت جعفری، سہیل عبدالناصر) وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقیات اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے وہ یقین سے یہ بات کہتے ہیں وزیر اعظم نظام حکومت کے حوالے سے  آئین میں کوئی تبدیلی کے خواہشمند نہیں ہیں، سی پیک کی جے سی سی کا اجلاس مارچ میں منعقد ہو گا، اس میں توجہ  کا مرکز زراعت کے شعبے میں دونوں ملکو ںکے تعاون کو بڑھانا ہو گا۔ پاکستان کے لئے چین سے کپاس کا نیا بیج لانا چاہتے ہیں، دیامیر بھاشا دیم کی تعمیر کی فنانسنگ کے لئے واپڈا کی بیلنس شیٹ کی بنیاد پر بڑے بینکوں اور سرمایہ کی مارکیٹ سے پیسہ آئے گا کیونکہ واپڈا کی کریڈٹ ریٹنگ بہت اچھی ہے۔ اندرون سندھ اور گلگت وبلتستان کے لئے راوں مالی سال میں ترقیاتی پیکج لا رہے ہیں جن کے منصوبے آئندہ  پی ایس ڈی پی کا حصہ ہوں گے ،چند سال میں پبلک پرائیویٹ شراکتی منصبوبوں کی مختص رقوم پی ایس ڈی پی سے بڑھ جائیں گی ،گردشی قرضوں کی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے ، ہم پی ڈی ایم کو اپوزیشن نہیں سمجھتے  عوام کی توقعات  پر پورا اترنا ہی ہماری اپوزیشن ہے اور اسے ہی چیلنج  سمجھتے ہیں ، پی ٹی آئی آئندہ   حکومت بنائے یا کوئی اور پارٹی ،اس کو ملک کی معیشت مظبوط بنیادوں پر کھڑی  ملے گی ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی  نے ان خیالات کا اظہار نوائے وقت اسلام آباد جے دفتر میں پینل انٹر ویو دیتے ہوئے کیا ،وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقیات وخصوصی اقدامات اسد  عمر نے کہا کہ اس وقت حکومت کی بڑی ترجیح ڈیمزہیں اور اس وقت تین بڑے ڈیمز  پر بیک وقت کام شورع ہے ،۔دیامیر بھاشا ڈیم ہے ،داسو اور مہمند ڈیم بن رہا ہے ،پی ایس ڈی پی میں ان کے لئے ایلو کیشن نظر آ رہی ہے ،دوسر ترجیح سی پیک  کا ویسٹرن الائمینٹ ہے ،اس پر کام تاخیر سے شروع ہو اجبکہ پی ایس ڈی پی میں جو تیسری بڑی چیز نطر آ رہی ہے وہ  وفاق کی طرف سے صحت کے حوالے سے بھاری ایلو کیشن ہے ،70ارب روپے کا منصوبہ بنایا گیا ، یہ وزیراعظم عمران خان کی ترجیح کا مظہر ہے ،اس کے ساتھ ساتھ ہائر ایجوکیشن کے فروغ کے لئے ریکارڈ اخراجات کئے گئے ، انفرادی منصبو بوں کی بجائے کسی بھی علاقے کے بارے میں مربوط  حکمت عملی بنائی جائے ،جیسے کراچی کا ٹرانسفارمیشن پلا  ن ہے ، یہ11سو ارب روپے کا منصوبہ  ہے ،اس میں600ارب روپے سے زائد وفاق کے ہیں،، دوسرا بلوچستان  جنوبی کے لئے کیا جو600ارب روپے سے زائد کا ہے ،ان دونوں پر کام چل رہا ہے ، پی ایس ڈی پی میں شامل ہوں گے ،ان میں سے ایک گلگت وبلتستان اور دوسرا اندرون سندھ کے لئے ہے ،اس کے پیچھے انہوں نے کہا کہ پاکستان دشمن قوتیں ہیں وہ  سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتی ہیں جیسے کراچی میں عرصہ تک کام چلتا رہا بلوچستان میں اب بھی جاری ہے ،اسی طرح گلگت اور بلتستان مین بھی پاکستان دشمن قوتیں متحرک ہیں اور چاہتی ہیں کہ ایشوز کھڑے کئے جائیں،انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی  سے باہر بھی پبلک پرائیویٹ پاٹنر شپ کے تحت بھی منصوبوںکے لئے کوشاں ہیں،آئندہ سال سرکاری نجی شراکت کے تحت منصوبے ہوں گے اور ہماری توقع ہے کہ چار پانچ سال میں شراکتی منصوبوں کی  مختص رقم پی ایس ڈی پی سے بڑھ جائے گی ،انہوں نے کہا کہ دیا میربھاشا ڈیم کی تعمیر  کے لئے زیادہ فنڈنگ باہر سے آنا ہے سرکولر ڈیٹ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں  انہوں نے کہ 2016 تک جب مسلم لیگ کا آدھا پیریڈ گزر چکا تھا تو گردشی قرضوں میں اضافہ  بیس، ییس ارب روپے تھا۔ اس ایک سال میں گردشی قرضہ میں   ساڑھے چار سو ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ اس لیئے ہوا کہ کیپسٹی پے منٹ تھیں۔  حکومت کے آخری سال میں اس مد میں جو ادائیگیاںہوئی تھیں وہ چار سو اسی ارب روپے تھیں۔ یہ دو سال کے بعد چھ سو پینسٹھ ارب روپے ہوگئے۔ اب یہ آٹھ سو ارب روپے کے قریب پہنچے جا رہا ہے۔ 2022اور   2023 میں چودہ سو پچاس ارب روپے پہنچنے جا رہا ہے۔ یعنی اس پانچ سال کے عرصہ میں  یہ نو سو سے ایک ہزار ارب روپے کا سالانہ اضافہ ہونے جا رہا ہے۔  مجموعی گردشی قرضہ بڑھا ہے لیکن صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہے۔  ان فیصلوں کے تحت آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کی۔ جس سے منصوبوں کی لائف ٹائم میں آٹھ سو ارب روپے کی بچت ہو گی۔  سرکاری ملکیت کے ان منصوبوں میں جیسے ایل این جی کے منصوبے ہیں ان کی نج کاری ہونے والی ہے۔  چوتھی چیز ہم نے اس سلسلہ میں کی کہ واپڈا کے غیر   مفید  پلانٹوں کو ہم نے بند کرنا ہے۔ ساتھ ہم نے یہ ہدائت کر دی تھی کہ اس سے نہ کوئی بندہ بے روزگار ہو گا نہ پنشن بند ہو گی اور فارغ ہونے والے ملازمین کو واپڈا کے دوسرے پلانٹوں میں کھپا دیا جائے گا۔  اس کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ اتنا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وزیر اعظم  کوئی آئینی ترمیم نہیں چاہتے۔ ان کا یہ بیان دراصل ایک سیاسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ پالیسیاں دیرپا  ہوں اور ان میں تسلسل ہونا چاہئے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...