ملازمین میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا المیہ اور لائحہ عمل 

Feb 20, 2021

منیر احمد خان

 پاکستان کے چاروں صوبوں اور  135 اضلاع میں پھیلی ہوئی میٹروپولٹین کارپوریشن بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے غیرحقیقی شکل میںشہریوں کے بنیادی مسائل کے حل اوربہبود کے لیے کام کر رہی ہیں بلدیاتی نظام کی حقانیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا یورپ اور امریکہ بلدیاتی نظام کی فعالیت کی وجہ سے ہی فلاحی ریاستوں کا درجہ رکھتے ہیں وہاںکا ہر شہری اپنے حقوق کا استفادہ بھی حاصل کر رہا ہے خصوصاً وہاں بلدیاتی ملازمین کو وہ تمام سہولتیں دی جاتی ہیں جو وہاں کے آئین میں طے شدہ ہیں ہمارابنایا ہوا آئین بھی سرکاری ملازمین کا بھر پور تحفظ کرتا ہے لیکن جہاں آج تک شہری صحیح طریقے سے بلدیاتی نظام سے مستفید نہیں ہو سکے وہاں ملازمین کس گنتی میں آتے ہیں نقارہ کے سامنے طوطی کی آواز کون سنتا شاید ہماری حکومتوں ،ہماری انتظامیہ اور ہماری مقننہ کے سامنے سب سے نحیف اور کم سنائی دینے والی آواز عوام کی ہے لاہور میٹرو کارپوریشن کی یونین کے صدر محبوب بھٹی نے اپنی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں ہر محکمے کے ملازمین کو متعلقہ ادارے مکانات کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیںہم بے گھر ہیں ہمارے ملازمین کے لیے رہائشی سکیم تعمیر کی جائے تاکہ ہمیں چھت نصیب ہو سکے اس ضمن میں یاد رہے کہ لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن کی 481کنال اراضی قبضہ مافیا کے تصرف میں ہے جسے ابھی واگزار کروایاجارہا ہے اس سے پیشتر کے بات شروع کی جائے اس بلدیاتی نظام چلانے والے محکمے کے بارے میں وضاحت کر دوں کہ اس ادارے کو بنانے کا اصل مقاصد کیا تھا ا نگریز نے شہریوں کے بنیادی مسائل ان کی دہلیزپرحل کرنے کیلئے اس بلدیاتی ادارے کی بنیاد1866 میں ڈالی تھی اس حوالے سے انگریزوں نے اس نظام کی بہتری کے لیے انتہائی کاوشیں کیں اس ضمن میں اس وقت کے بلدیاتی اداروںپرایک سرسری نظر ڈالتے ہیںلوکل گورنمنٹ نظام سب سے پہلے بنگال میں1842کو کنزروینسی ایکٹ کے تحت متعارف کروایا گیا۔اس کنزوینسی ایکٹ کو تھوڑا آزمانے کے بعد 1850کاایکٹ لایا گیا جس کے تحت ہندوستان کے کئی بڑے شہروں میںمیونسپل کمیٹیاں قائم کی گئیں کراچی میونسپل کمیٹی1853میں قائم ہوئی اس نظام کو مزید تقویت دینے کیلئے پانچ سال کیلئے 1867کا ایکٹ منظور ہوا اسکے پورے پانچ سال بعد1873کا ایکٹ پاس کیا گیا جس میں عوام کو اور سہولتیں دی گئیں وقت کے ساتھ اس نظام کو دیہی علاقوں میں وسعت دینے کیلئے 1883 کا ایکٹ منظور ہوااور شہری علاقوں کی فلاح و بہبود کیلئے 1884 کا قانون پاس ہوا اس نظام میںعوام کو اور سہولتیں دینے کیلئے 84 18کا ایکٹ منسوخ کر کے 1891کا ایکٹ پاس کیا گیا اس نظام سے مزید استفادہ کرنے کیلئے انگریزوں نے خوش آئند بات یہ کی کہ1911کاجوقانون بنایا اسے نئی ترمیمات کے ساتھ بنایا 1912 میں پنچاب پنچایت ایکٹ پاس ہوا اس نظام کی آبیاری کیلئے سرفضل حسین کی سربراہی میں بہت کام ہوا 1921 اس میں سب سے اہم یہ کہ ہماری ثقافت کوپیش نظر رکھتے ہوئے پنجاب پنچا یت ایکٹ ہوا1922میں شہروں کی ترقی کیلئے سمال ٹائونز اور ٹائون امپرومنٹ ایکٹ پاس ہوئے جوبہت بڑی اچیومنٹ تھی سائمن کمیشن رپورٹ میں میونسپلٹی نظام کو اور مضبوط کرنے پر زور دیا گیا1931 میں ایگزیکٹوآفیسرایکٹ پاس کیا گیا 1935  میں آل انڈیا ایکٹ منظور ہوا تو پنجاب میں دوقوانین پاس ہوئے ایک 1939 کا پنچایت ایکٹ دوسرا 1941 کا سٹی آف لاہور کارپوریشن کا ایکٹ جب پاکستان آزاد ہوا تو پنجاب میں40 ہزارگائوں میں4 ہزار مقامی پنچایتیں کام کر رہی تھیں۔ مذکورہ بالا تھوڑی سی تفصیل دینے کا مقصد اس امر کی حقیقت کو سمجھانا تھا کہ اس وقت کے حکمرانوں نے محکوم قوم کے بنیادی حقوق سے بھی صرف نظر نہیں سمجھاوہ اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ لمبا عرصہ حکومت قائم رکھنے کیلئے عوام کے بنیادی حقوق ان کی دہلیز پر دینے پڑتے ہیں اسکے بغیر حکومتیں نہیں چلتیں لہٰذا انہوں نے بلدیاتی نظام کی تعمیرپر بہت زور دیا۔ انہوںنے شہریوںکی بہبود کیلئے میونسپل قانون میں ترمیمات کیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں ایک ہمارے حکمراں ہیں کہ ژولیدہ حال طبقات کی بد حالی 74 سالوں سے جوں کے توں ہے قوم نے ہر دھائی دیکر دیکھ لی حکومت کا اخلاقی دیوالیہ کااندازہ لگائیں کہ مخلو ق خدا کو عرصہ دراز سے تسلی وتشفی پے ٹرخا رہے تقریباً 6/7 ماہ سے ایپکاکے عہدیدار ملازمین کی تنخواہ ، پنشن اور دیگر مطالبات کے سلسلے میں پورے پاکستان سمیت اسلام آباد میں بھی ریلیاں نکال رہے ہیںان کی دادفریاد کوئی سننے والا ہی نہیں حکومت کا وہی مائنڈ سیٹ ہے وہ انکے جائز مطالبے کو بھی حل کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں حکمرانوں کے اس مائنڈسیٹ نے اس ملک کو آخری نہج پہ پہنچا دیا ہے حبیب جالب نے کہا تھا…؎
 کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
 عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے 
 وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہو
 نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
 ملازمین بلدیہ کی نظر الیکشن پر تھی کہ حقیقی انتظامیہ کے آگے اپنا مطالبہ رکھیں گے بلدیاتی الیکشن توہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ صوبائی حکومتیں بنیادی جمہوری نظام کو اپنی سوکن سمجھتی ہیں۔ 

مزیدخبریں