مادری زبانوں کا عالمی دن اورہماری ذمہ داری

 ہم کل مادری زبان کا جودن منانے جا رہے ہیں اس کی بنیاد میں تعصب، نفرت اور بے اعتمادی کے گارے کو انسانی خون سے تر کر کے ڈالا گیا۔ آج ہم اس دن کو حوالہ بنا کر اپنے لئے مادری زبان بولنے اور اسی میں بچوں کو تعلیم دینے اور اسے کارِ سرکار کی زبان بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ،یہ دن در اصل بنگالیوں کی اس جدو جہد سے عبارت ہے جنہوں نے اپنے لیے بنگالی زبان کا حق مانگتے ہوئے ڈھاکہ کی سڑکوں کو اپنے سے سرخ کیا۔ دیکھا جائے توایک طرف ہمارے بڑوں سے ایسی تاریخی غلطی سرزد ہوئی جس کازیادہ خمیازہ آج پاکستان کی سب سے بڑی زبان پنجابی اور پنجابیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔دوسری طرف مخالفین نے پنجابیوں کو ان کی مادری زبان سے محروم رکھنے کیلیے ہر قسم کی سازش سے گریز نہیں کیا۔ اردو ہندی تنازعہ کی بنیاد بھی سازش پر رکھی گئی۔  دراصل یہ مسلمان حکمرانوں کی باقیات سے مکمل نجات کی ایک بھونڈی کوشش ہی کہی جاسکتی ہے۔یاہمارے یہاں پہلے تو قومیت کا مسئلہ ہی حل نہیں ہوا۔ زبان تو اس سے اگلی سٹیج ہے۔ ہمیں اپنے قائد کی نیت پر تو شک نہیں کہ انہوں نے تو پاکستانیوں کو ایک وحدت میں پرو نے کیلئے ہی اردو کو قومی زبان بنانے کی بات کی تھی۔اردو کو قومی زبان بنانے میں جو دلائل دے جاتے ہیںوہ خود بحث طلب ہیں ۔اس نظریئے یا سوچ کی ابتداء تب ہوئی جب اردو کو اسلامی اور ہندی کو ہندوتشخص سے جوڑا گیا اورفسادات برپا کروائے گئے۔ اسی تناظر میںقائد اعظم نے فرمایا کہ ’’ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی کیونکہ ارد وہی برصغیر کی واحد زبان ہے جس میں نہ صرف مذہب، ثقافت اور ادب کے حوالے سے مسلماناںِ برصغیر کا عظیم علمی سرمایہ محفوظ ہے بلکہ یہ رابطہ کی زبان بھی ہے‘‘ جب یہ اعلان ہوا تب پاکستانی آبادی کے چھپن فیصد کی زبان بنگالی تھی۔ اب ظاہر ہے کسی ملک کی اکثریت کی زبان ہی قومی زبان ہونی چاہئے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظریہ اس اصول کے مطابق ملک کی سرکاری زبان بنگالی ہونا چاہئے تھی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی جبراً اردو ان پر ٹھونسی گئی ، جس کا ردِ عمل لازمی تھا۔قائداعظم کے ذہن میں ’ اردو ہندی تنازعہ‘ تھا جس کا واحد حل ان کی سمجھ کے مطابق اردو کا فروغ تھا۔ اگر اردو کے ساتھ بنگالی بھی سرکاری زبان ہوتی تو کیا ہرج تھا؟ کیونکہ آج بھی متعدد ممالک میں ایک سے زائد زبانیں مروج ہیں ان ممالک میںکینیڈا، بیلا روس، بلجیئم ، آئر لینڈ سائوتھ افریقہ ، سوئٹرز لینڈ حتی کہ بھارت بھی شامل ہے۔ ان ممالک میں بھارت کو چھوڑ کر دیگر تمام ممالک کی آبادی پاکستان سے کہیں کم ہے بلکہ کچھ کی آبادی تو پاکستان کے کسی ایک صوبے سے بھی کم ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دیناضروری ہے۔ جس پر سوائے پاکستانی پنجاب کے سب جگہ عمل ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صرف پنجاب ہی کو نشانا کیوں بنایا جا رہا ہے؟اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تقسیم کے وقت ہندوستان تقسیم نہیں ہوا بلکہ صرف پنجاب تقسیم ہوا ۔ اس تقسیم کے پیچھے یہی راز پوشیدہ تھا کہ پنجاب کو جو اکثریتی صوبہ ہے۔ اسے کمزور کیا جائے۔ آج بھی ہمارے ساتھ یہی کھیل کھلا جا رہا ہے پاکستان کی کل آبادی کے نصف سے زائد افراد کی مادری زبان پنجابی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز نے صرف پنجابی کومشقِ ستم بنایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ پنجاب واحد خطہ ہے جہاں انگریز کو سب سے زیادہ مزاحمت اٹھانا پڑی، اب بھی پنجاب حکمرانوں کو اسی لئے کھٹکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن