کروڑوں کی کہانی

چلئے آج کالم کا آغاز ایک دلچسپ کہانی سے کرتے ہیں جوحقیقت پرمبنی ہے۔یہ ربیکالوسیل شیفر کا قصہ ہے ربیکا80کی دہائی میں ایک نوجوان، خوبصورت اور اْبھرتی ہوئی ادکارہ تھی۔راتوں رات لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن جانیوالی اس اداکارہ کے پرستاروں اور جاں نثاروں کی بھی کمی نہ تھی۔ انہی میں سے ایک جاں نثار اسکی جان کا دشمن بھی بن گیا۔رابرٹ نے اپنی محبت کا اظہار کرنے کیلئے ربیکا کو کئی خوبصورت خطوط لکھے۔ہرخط میں ایک دل اور ربیکا کی تصویر ضرور چسپاں ہوتی تھی جس کے نیچے اسکے دستخط کیساتھ یہ عبارت ضرور ہوتی۔ربیکاسے محبت کے ساتھ ایک پرستار اور ایک مداح۔کسی ایک خط کاجواب بھی موصول نہ ہونے پر رابرٹ نے ربیکا سے ملاقات کی ٹھان لی۔ مختصراًاْس نے250ڈالرز پر ایک نجی جاسوس رکھ کر ربیکا کے گھر کا پتہ لگالیا۔18جولائی1989ء کو رابرٹ اپنی محبوبہ کے دروازے پر کھڑا اس سے اظہارمحبت کر رہا تھا۔ربیکا نے جواب دیا کہ اْس کے پاس اتنا فالتووقت نہیں کہ وہ کسی پرستار کی جنونی محبت میں اْسے ضائع کرسکے۔ اگر تم اپنے پرستار کی نہیں ہوسکتیں تو پھر کسی کی بھی نہیں ہوسکتی، یہ کہہ کر رابرٹ نے ربیکا کو گولی مارکر ہلاک کردیا۔میں تب سے سوچ رہی ہوں کیایہ واقعی محبت ہے؟ مجھے اس واقعہ کے بعد ہیر رانجھا، سسی پنوں یا لیلیٰ مجنوں کی داستان یاد نہیں آئی۔ مجھے اپنے وطن سے محبت کرنے والوں کی لمبی فہرست یادآگئی جو آج سینٹ الیکشن کے لئے تگ ودو میں لگی ہوئی ہے۔قارئین اس لمبی فہرست کا ہر اْمیدوار اس بات کا دعویدار ہے کہ اس وطن سے وہی اصلی اور سچی محبت کرتا ہے۔اس کے سارے مسائل کا حل بھی صرف وہی کرسکتا ہے۔ اگرچہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور یہاں حکمرانی کا حق بدرجہ اتم خوبیوں کے باعث بھی صرف اْسی کو حاصل ہے مجھے یہاں کا ہرحکمران رابرٹ نظر آرہا ہے جسے وطن عزیز اپنی محبوبہ ربیکا دکھائی دیتی ہے۔ ہم عوام تو اس کی لمبی عمر کی دْعائیں ہی مانگ سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر دولتمند سیاست میں آنے کا خواہشمند ہے۔ ہر صنعت کار اور تجربہ کاراپنی دولت کو مختلف طریقوں سے بڑھانے کے چکر میں ہے اور یہ چکر چل بھی جاتا ہے۔ غریب اپنا سر پیٹنے اور مہنگائی کا رونا رونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔شنید ہے کہ بلوچستان اور کے پی کے میں ارکان اسمبلی70کروڑ میں اپنا ووٹ فروخت کرنے پر گفت وشنید کررہے ہیں۔ اونچے ایوانوں میں اْونچی بولیاں لگانے والوں کو معلوم بھی شاید نہ ہوگا کہ ان ایوانوں سے باہر عوام پٹرول کی قیمتوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے کیسے ہلکان ہورہے ہیں۔ ہر آئے دن ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کا جواز اور معقول جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے سوائے بہانوں اور باتوں کے کچھ نہیں ہے۔ خریدو فروخت کا یہ سلسلہ ہر پارٹی میں چل رہا ہے۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور پھر چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں تقریبا  ایک ہزار ایک سو پچانوے ارکان ہیں۔ جن پر قومی سرمائے کا کثیرحصہ خرچ ہوتا ہے ان عوامی نمائندوں کے کارنامے ایوانوں میں آجانے کے بعد ہم ملاحظہ فرماتے ہی رہتے ہیں۔آج تک واضح نہیں ہوسکا کہ یہ عوامی نمائندے عوام کی رہنمائی، بھلائی اور نمائندگی کس طرح سے فرما رہے ہیں۔ آپ اپنی خدمت پر مامور ان نمائندوں کو کوئی پوچھنے والا بھی ہے؟ کسی نے سچ کہا کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم اور نا انصافی کا نہیں۔اپنے بارے میں سوچنے والے اس طبقے کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ اپنی پارٹی بچانے کے چکر میں ہے کوئی تو کوئی ھکمران کی سیٹ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ آپ ذرا غور تو کریں کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جوذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنا منشور پیش کر رہا ہو۔ پی ڈی ایم کے اپنے اپنے رولے ہیں۔ ایک پارٹی کے اندر جداجدا مفادات ہیں۔سیٹوں پر براجمان کے اپنے اپنے مسائل ہیں اور پھر سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مسئلہ ہے ایک یہی نقطہ ہے جو سب میں مشترک ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کا شور ہے۔ سینٹ کے الیکشن نہ ہوگئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوگیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایک بندہ کروڑوں روپے لگا کر سینیٹر بن جاتا ہے تو کیا واقعی وہ عوام اور ملک کیلئے کام کرے گا۔ اس بات کی گارنٹی کون دے گا۔ اس بات سے اب پردہ اٹھ چکا ہے کہ ایسے لوگ بے تحاشا روپیہ خرچ کرکے آتے ہیں اور پھر بے تحاشا لوٹ مار اور کرپشن کے ذریعے کئی گنا زیادہ کمانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ خوب لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کئی مافیاز بھی جنم لیتے ہیں۔سرکاری اورغیر سرکاری املاک پر قابض مافیا، ڈرگ مافیا اور پھر ہمارے ملک کی جڑوں میں بیٹھ جانے والا منی لانڈرنگ کا خطرہ جو باقاعدہ ایک خطرناک مافیا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ کوئی تو ہو جو اس سسٹم کو بریک کرنے کا باعث بنے۔

ای پیپر دی نیشن