’’جمہوری پبلیکشنز‘‘اورمیاں محمود علی قصوری 

الفاظ یا مضامین کی جگالی مقصود نہیں۔مگر کچھ تاریخی واقعات وحقائق ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا۔یاپھر کچھ شخصیات ایسی ہمہ جہت وہمہ صفت ہوتی ہیں کہ ان کا تذکرہ باربار بھی ہوتو نئی نئی پرتیں کھلتی ہیں۔پہلی بار جب جیل جانا ہوا تو کمسنی کازمانہ تھا۔ایوب خاں رخصت ہورہا تھا اور جانیوالے آخری باراپنادبدبہ زیادہ پرزور انداز میں دکھاتے ہیں جب گرفتار ہوکر کوٹ لکھپت جیل پہنچا تو آلام منہ کھولے کھڑے تھے،خود کو بڑی مشکل میں پایا مگر کیا معلوم تھا کہ یہ جو مولانا عبید اللہ انور ،بابائے سوشلزم شیخ رشید اور شیخ رفیق کے ساتھ جیل میں وقت گذر رہا ہے ایک دن اس طرح تاریخ کا حصہ بن جائیگا کہ یہ کلفتیں ان دنوں کی یاد میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک خوش کن لمحہ محسوس ہوگا اورایسے بڑے لوگوں کی سفر زنداں کی ہمراہی باعث فخر ہوگی ۔اسکے بعد تو جیسے کاروبارسیاست میں جیلوں میں جانا اوررنج وآلام کا سامنا کرنا گویا ایک "عادت"سی بن گئی۔ ایک طویل فہرست ہے ایسے تمام راہنمائوں اور نابغہ روزگار لوگوں کی جن کے ساتھ قید وبندکاوقت بعد میں خودایک تاریخ بھی بنا اور ان کی صحبتیں اور مجلس بھی اک تاریخ بنا گئیں۔ وکالت ،سیاست ،علمیت ،خدمت اور حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والے میاں محمود علی قصوری بھی ایسے ہی تاریخ ساز اور بہت سی صفات کاکشتہ تھے۔ ہمارے دوست فرخ سہیل گوئندی نے ’’جمہوری پبلیکشنر‘‘ کے زیر اہتمام" داستان خانوادہ ،میاں محمود علی قصوری ۔برصغیر کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ" کے عنوان سے پاکستان کے بائیںبازو کے دانشور،مصنف اور صحافی عبداللہ ملک کی تصنیف شائع کی ہے۔برصغیر میں جن لوگوں نے آزادی کی تحریکوں کی راہنمائی کی اور کامیابیاں سمیٹیںان میں سب سے بڑا مقام وکلاء کا رہا ہے۔ گاندھی ، موتی لال نہرو ، جواہر لال نہرو وغیرہ ہندوہستان میں جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح ،لیاقت علی خاں،حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان میں سب سے اہم مقام رہا۔علاوہ دیگران کے میاں محمود علی قصوری کانام 1973ء کے آئین کی تشکیل کے حوالے سے بالخصوص اور حقوق انسانی کے حوالے سے بالعموم ناقابل فراموش اور ہر قسم کی ذاتی تشہیر اور لالچ سے پاک وصاف رہا۔شاید اسی لئے 1985ء میں جب عاصمہ جہانگیر نے ’’انسانی حقوق کمشن آف پاکستان‘‘ قائم کیا تو اس کے پہلے اجلاس میں جولاہور کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں ہوا،میاں صاحب نے شرکت نہیں کی تھی۔ میں اس سے قبل گذشتہ پندرہ سالوں میں میاں صاحب پر ’’نوائے وقت‘‘ میں تین بار اور نیویارک کے ’’ایک اخبار‘‘ میں ایک بار کالم لکھ چکا ہوں۔مجھے یہ فخر رہا کہ زندگی میں پہلی بار جب جیل گیا تو میری ضمانت بھی میاں صاحب نے کروائی اور پھر ضیاء الحق کے دور میں تحریک استقلال اور M.R.D کی جدوجہد میں میں انکے ساتھ خود پابند سلاسل رہا۔ ’’جمہوری پبلکشنر‘‘ کی تصنیف جو عبداللہ ملک کے سحرانگیز قلم کا شاہکار ہے کتاب سے زیادہ ایک مستند دستاویز ہے۔ایک ایسی دستاویز جس میں برصغیر کی مسلم لیگ ،کیمونسٹ پارٹی ،مجلس احراراسلام ،پاکستان کی پہلی حزب اختلاف ،شہری آزادیوں کی تاریخ ،پاکستان پیپلزپارٹی‘ تحریک‘استقلال ،تحریک بحالی جمہوریت (MRD)،ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ان کے والداور برصغیر کے معروف سیاسی راہنمااور یکتاوکیل مولانا عبد القادر قصوری،بھائی مولانا محی الدین قصوری ،ذوالفقار علی بھٹو،اصغر خاں ،بینظیر بھٹواور دونوں صاحبزادے خورشید محمود قصوری اور عمر قصوری جیسے کردار زندہ جاوید ہوکر ایسے گویا ہوتے ہیںکہ پڑھنے والادم بخودرہ جاتا ہے ۔مولانا بھاشانی کے باب میں یہ انکشاف خاصا دلچسپ ہے کہ انہوں نے مادر ملت کے مقابلے میں چین کے وزیر اعظم کے کہنے پر ایوب خاں کو ووٹ ڈالوائے تھے۔ویت نام میں امریکہ جنگی جرائم کے بارے میں برطانیہ کے لارڈبرئینڈرسل نے جوٹربیونل قائم کیا میاں صاحب نے اپنی زبان سے اسکی جو تفصیل جیل میں عبداللہ ملک کوبتائی ،بجائے خود ایک بین الاقوامی دستاویز ہے ۔میاں صاحب کے ساتھ ایک بار لاہور سے گوجرانوالہ سفر کرنے کا موقع ملا تو جمعہ کا روز تھا۔ سب سے پہلے وہ چوک نیائیں میں مولانا اسماعیل سلفی مرحوم والی مسجد "جامعہ محمدیہ"میں جاکر خطبہ جمعہ سے مستفید ہوئے نماز ادا کی اور سیٹلائٹ ٹائون میں خواجہ منظور ایڈووکیٹ مرحوم سے ملنے بطور خاص گئے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ جب گوجرانوالہ آنا ہوتا تو جامعہ محمدیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی اور خواجہ منظور صاحب سے ملنا ان کا معمول تھا۔تحریک استقلال اور MRDکی جدوجہد میں وہ بیماری اور بڑھاپے کے باوجود جس استقامت سے جیل کی کلفتوں کا سامنا کرتے رہے اسکی مثالیں تو موجود ہیں مگر بہت کم رہا۔اے کے بروہی کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ میاں صاحب نے بیان کیاکہ ایوب خاں کے مارشل لاء کی وزارت بننے کے فورا بعد بروہی صاحب لاہور آئے اورگورنمنٹ کالج کے پرنسپل سراج صاحب کے مہمان ہوئے اور میری ایک ملاقات ان سے سراج صاحب کے مکان کے صحن میں ہوئی اور ایک یادگار گفتگو ہوئی ۔بروہی صاحب کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مارشل لاء کاوجود آئین اور ملک کیخلاف ہے اور ہمارے مشترکہ دوست منظورقادر نے مارشل لاء کی وزارت قبول کرکے بہت نامناسب کام کیا ہے۔ باربار بروہی صاحب مجھ سے فرماتے تھے کہ میں ان سے وعدہ کروں کہ اگر مارشل لاء حکومت کی طرف سے وزارت کی پیشکش ہوتو میں ہر گز قبول نہ کروں۔ میرے لئے یہ وعدہ کرنا مشکل نہیں تھا۔کیوں کہ میرے اعتقادات ہی ایسے تھے۔ اس دوران منظور قادر نے فیلڈمارشل ایوب خاں کی اجازت سے بروہی صاحب کو اپنی وزارت خارجہ کے دوران پیشکش کی کہ ہندوستان میں پاکستان کے ہائی کمشنر بن جائیں۔اس وقت کی اطلاعات کیمطابق بروہی صاحب بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ چاہتے تھے۔اور وہ ہندوستان میں ایوب خان کے سفیر بن کرچلے گئے۔میرے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ ابھرتا رہا کہ انکی سفارت کی ملازمت کو انکی اس گفتگو سے کس طرح مطابق کروں جس میں انہوں نے مارشل لاء حکومت سے ہر قسم کے تعاون کو شدید غلطی اور کمزوری قراردیا تھا۔میں نے ان سے یہ مسئلہ بالآخر چھیڑ ہی دیا ۔کہنے لگے کہ ہندوستان میں پاکستان کی سفارت ایک "قومی فریضہ" تھی اور وہ اس فریضہ کی ادائیگی میں ہندوستان گئے تھے۔زمانے بیت گئے مگر ہماری قومی سیاست ابھی تک بہت سے "اے کے بروہیوں"سے بھری پڑی ہے۔ 

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن