پاکستان میں غذائی قلت اور فولاد کی کمی 

 ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق غذائی قلت کسی شخص میں غذائی اجزاء کی کمی و زیادتی اور عدم توازن ہے اسے صرف کمی کے طور پر لینا درست نہیں۔ جنوبی ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی قلت غذائی اہداف کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے جبکہ مناسب اور متوازن غذا بچوں کی اچھی صحت و بقا کی ضامن ہے۔ 2018ء میں نیشنل نیوٹریشن سروے کی روشنی میں مرتب کردہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ پاکستانی بچے دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلہ میں غذائی قلت سے زیادہ متاثر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے 40 اعشاریہ 2 فیصد بچے مکمل نشوونما کے حامل نہیں جبکہ 17 اعشاریہ 7 فیصد بچوں میں پٹھے تباہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں عام غذائی قلت میں فولاد، وٹامن اے، ڈی ، زنک اور فولک ایسڈ کی کمی کو پایا گیا۔ صرف فولاد کی کمی سے 6 سے 59 ماہ کے 49 اعشاریہ 1 فیصد بچے متاثر پائے گئے۔۔ سال 2011ء میں کئے گئے ایک سروے میں 43 اعشاریہ 8 فیصد بچوں کے خون میں فولاد کی کمی کی پریشان کن حقیقت سامنے آئی۔ 7 سال کے بعد بھی بچوں کی غذائی قلت کے حوالے سے کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غذائی قلت کی صورتحال کافی بگڑ چکی ہے اور اس کی درستی کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔  تیز ترین جسمانی نشوونما کے لیے عمر کے ابتدائی دو سالوں میں فولاد کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔بچوں کے علاوہ فولاد کی کمی نوعمر اور حاملہ خواتین کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ خواتین میں غذائی قلت حمل کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ بنتی ہے اور بعد میں نومولود بھی اس کا شکار ہو جاتا ہے۔  فولاد کی کمی جسم میں تھکاوٹ، سستی اور خون کی کمی کا سب سے بڑا سبب ہے اس مسئلے کی وجہ سے دیگر سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جن میں پیداواری صلاحیت میں کمی، خراب تعلیمی کارکردگی، محنت کی مجموعی پیداوار کا متاثر ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت کے منشورمیں اگرچہ صحت و غذائی قلت کے مسائل سے نبٹنا شامل تھا لیکن تاحال ان شعبوں میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔ ابتدائی طور پر غذائیت کے حوالے سے لوگوں میں شعوری بیداری اور بنیادی تعلیم کے انتظام کی ساتھ انہیں یہ بتانا کہ بچوں کی خوراک میں فولاد سے بھرپور غذائیں ( سیب، انڈے کی زردی، پالک اور دلیوں کا) شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ ملک کو درپیش غذائی قلت کے مسائل سے نبٹنے کے لیے فوڈ فورٹیفکیشن (مقوی غذا) ایک اہم طریقہ ہے اور ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت ایسی پالیسیز مرتب کرے جو کھانے کی صنعت کو گندم، گھی اور دودھ کے ساتھ ساتھ  دیگر اشیاء کو بھی غذائی طور پر مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن