بھارت کی مغربی ریاست گجرات کی عدالت نے 2008ء میں احمدآباد میں ہونیوالے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے 38 مسلمان شہریوں کو سزائے موت اور گیارہ دیگر ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ خصوصی عدالت کی جانب سے یہ سزا غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت سنائی گئی ہے۔ اس کیس میں تقریباً 80 افراد کیخلاف مقدمے کی کارروائی کی گئی جن میں سے 49 افراد کو مجرم قرار دیا گیا اور 28 کو بری کر دیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 26 جولائی 2008ء کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمدآباد میں 70 منٹ کے اندر 21 دھماکے ہوئے تھے جن میں 56 افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی نے ان دھماکوں پر بھارتی مسلمانوں کی ایک تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا تھا جس کے کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گجرات ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔
پاکستان کی جانب سے احمد آباد دھماکوں کے کیس میں 38 مسلمانوں کی سزائے موت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے تمام ہندو ملزمان کو بری کرنے کے بھارتی عدالت کے فیصلے کی مذمت کی گئی ہے اور اس دہشت گردی کے متاثرین سے انصاف کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 68 بے گناہ مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کی جانب سے جاری کردہ بیان میں سمجھوتہ ایکسپریس کے عدالتی ٹرائل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور اس میں ملوث کرداروں کو باعزت بری کرنے کے فیصلہ کو ہندو تعصب پر مبنی اور انصاف کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے گزشتہ روز بھارتی ناظم الامور لاہور کو طلب کرکے انہیں سمجھوتہ ایکسپریس کے متاثرین کو پندرہ سال سے انصاف نہ ملنے پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارت کی موجودہ حکومت کے تحت دہشت گردی شدت اختیار کر گئی ہے اور بھارت دہشت گردی کو بطور ریاستی ہتھیار استعمال کر رہا ہے جبکہ بھارت سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی میں بھی ملوث ہے اور سی پیک کو سبوتاژ کرنے کیلئے پاکستان کیخلاف منفی پراپیگنڈا کررہا ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ مودی سرکار کے ماتحت بھارت قطعی طور پر ایک ہندو انتہاء پسند ریاست کے قالب میں ڈھل چکا ہے جہاں مسلمانوں اور دلت ہندوئوں سمیت کسی بھی اقلیت کی جان‘ مال اور عزت محفوظ نہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا تو مودی سرکار نے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے اور کشمیریوں پر بھی مسلمان ہونے کے ناطے ہی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کے ہندو لیڈران اپنے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کے تحت تقسیم ہند کے وقت سے ہی توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر پاکستان کے علاوہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بھی دشمنی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہندو انتہا ء پسندی کی اسی ذہنیت کے باعث بھارت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کی بنیاد رکھ کر گزشتہ 75 سال سے علاقائی کشیدگی کی فضا برقرار رکھی ہوئی ہے جس نے پاکستان پر تین جنگیں بھی اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کے تحت ہی مسلط کیں اور 1971ء میں اسی ایجنڈہ پر گامزن ہو کر اپنی پروردہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو دولخت کیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملی طور پر حصہ لینے کا فخریہ اظہار کرتے ہیں تو ان سے پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات کی ہرگز توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
اگرچہ بھارت کی کسی بھی حکومت نے پاکستان کو خلوص نیت کے ساتھ قبول نہیں کیا مگر بی جے پی کی مودی سرکار نے تو پاکستان دشمنی کی انتہاء کر دی ہے جس کے دور میں مسلم دشمنی کو بھی انتہاء تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اسی ہندو انتہاء پسند جماعت کے پہلے دور میں احمدآباد میں مسلم کش فسادات ہوئے اور بابری مسجد کو شہید کیا گیا جبکہ اب بی جے پی کے دور میں پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے اور بھارتی مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جار رہی۔ اسی تناظر میں بھارت کو گزشتہ سال ایک امریکی اخبار نے عالمی دہشت گرد قرار دیا جس کی سرپرستی میں دنیا کے مختلف ممالک میں ہونیوالی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اس لئے ہندو انتہاء پسندانہ سوچ کے ماتحت علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی کو بھی مسلسل خطرات لاحق ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ دہشت گردی پھیلانے کا مرتکب خود بھارت ہورہا ہے مگر ایک گھنائونی سازش کے تحت بھارت میں ہونیوالی دہشت گردی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ اسکی بنیاد پر پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کیا جاسکے۔ اگر بھارت میں ہونیوالی دہشت گردی کی اب تک کی وارداتوں کی ٹھوس اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں تو ان میں بھارت کا اپنا ہاتھ ہی ملوث ثابت ہوگا۔ خود ساختہ ممبئی حملوں سے پلوامہ دہشت گردی کی واردات تک سب میں بھارت کا ریاستی ہاتھ ملوث ہونا ثابت شدہ ہے مگر ان میں سے ہر واردات میں پاکستان کو ملوث اور بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔ گجرات بم دھماکوں میں ایک مسلم تنظیم کو ملوث کرکے 38 مسلمانوں کو سزائے موت سنانا بھی بھارتی سازشوں کے اسی سلسلہ کی کڑی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندو انتہاء پسند بھارت کی ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کیخلاف دہشت گردی اور انکے قتل عام میں ملوث ہوتے ہیں جنہیں ریاستی سرپرستی میں ہی بھارتی عدالتوں سے بری کرایا جاتا ہے۔ نریندر مودی تو گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھی مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے ہندو دہشت گردوں کی سرپرستی اور انہیں تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں جس کی بنیاد پر امریکہ نے انکے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
بھارت میں ہندو انتہاء پسندوں کی دہشت گردی کے دو واقعات تو عالمی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ 18 فروری 2007ء کو دھماکے کے ذریعے سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے کی صورت میں بھارتی ریاست ہریانہ کے تاریخی علاقے پانی پت میں رونما ہوا جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 68 مسافر جاں بحق ہوئے۔ اس میں بطور خاص مسلمانوں کی بوگی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ بھارت کے سرونگ کرنل پرساد پروہت نے اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی جس نے خود اعتراف کیا کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے مابین مسلح تصادم کرانے کیلئے ہندو دہشت گردوں کو تربیت دی تھی۔ یہی کرنل پروہت مہاراشٹر کے شہر مالیگائوں میں ستمبر 2008ء میں ہونیوالے بم دھماکوں کا بھی ماسٹر مائنڈ تھا جبکہ ان دھماکوں میں براہ راست شریک ہونیوالی خاتون سادھوی پرگید سنگھ دہشت گردی کے ان مقدمات میں ملزم نامزد ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئی اور بھارتی لوک سبھا کی رکن منتخب ہوئی جو بھارتی نظام عدل کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ ہندوئوں کو تحفظ فراہم کرنیوالے بھارتی نظام عدل ہی کا شاخسانہ ہے کہ سوامی آسیم آنند سمیت سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی کے پانچوں ہندو ملزمان کو بری کر دیا گیا جبکہ اس دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کو ہندوئوں کی سازش چھپانے کیلئے ایک جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح مالیگائوں دھماکوں میں ملوث ہندو ملزمان کو بھارت کی خصوصی عدالت کی جانب سے خصوصی رعایت دی گئی جس کیخلاف جمعیت علماء ہند کے رہنماء ارشد مدنی نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو سپریم کورٹ نے انکی درخواست کی سماعت سے ہی معذرت کرلی۔ بھارتی مسلمانوں کیخلاف بھارتی ریاستی اداروں کے اس رویے سے صرف انصاف کا ہی قتل نہیں ہو رہا بلکہ ہندو انتہاء پسندوں کے حوصلے بھی بلند ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال جہاں عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں سے نوٹس لینے کی متقاضی ہیں وہیں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو بھی متحرک ہونا چاہیے اور گجرات دھماکوں کے کیس میں 38 مسلمانوں کی سزائے موت کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر بھارتی مسلمان ہندو انتہاء پسندی کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔