اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے ثمرات اس وقت نصیب ہوئے جب حکومت وقت نے عوام کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ان حقوق کی یقینی فراہمی کی ضمانت بھی دی اورعمل سے ثابت کیا اگرچہ ریاستی عہدے داران کے وسیع اختیارات ہوتے ہیں لیکن ان اختیارات کی وسعت کے مقابلے میں کسی فرد کو جو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں وہ تبھی یقینی قرار پاتے ہیں جب ریاست کی ناجائز مداخلت سے عوام محفوظ رہیں اور حکمران اقتدار کو آزمائش سمجھے کیونکہ اسلام میں عوام و حکمران کے درمیان کوئی فرق نہیں، دونوں اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ،اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اورزمین و آسمان کی بادشاہی صرف اللہ کیلئے ہے۔نہ عوام میں حکمران کے اور نہ ہی کسی حکمران میں عوام کے حقوق مقرر کرنے کی اہلیت ہے ،دونوں کے اختیارات اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہیں ۔عوام و حکمران دونوں اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بسر کرنے کے پابند ہیں ۔البتہ مسلم حکمران کیلئے سخت احکام ہیں کیونکہ اسکے ذمے رعایا کے حقوق ہیں ۔اسلام میں حکمرانی کا منصب جاہ و حشمت اور حصول منفعت کا باعث نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج اوربھاری ذمہ داری ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابرین مقتدر عہدوں سے گریز کرتے تھے کیونکہ عادل حکمرانوں کیلئے اللہ کے ہاں انعام و کرام کا وعدہ ہے لیکن جو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھاتے ان کیلئے عہدے روز حشر باعث ندامت ہونگے۔ مسلمان حکمران پر جو ذمہ داریاں عائدہیں ان میں اہم سماجی انصاف اور عوام الناس کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے ۔
اس وقت وطن عزیز میں انسانی حقوق کے ضمن میں مکمل کوتاہیاں برتی جا رہی ہیں جیسا کہ شہریوں کا حق ہے کہ ریاست جان و مال کا تحفظ کرے اگر کوئی شخص کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو ریاست تعزیرات کے مطابق سزا دے جبکہ بسا اوقات سنگین جرائم میں ملوث بااثر افرد اکثر با عزت بری ہوجاتے ہیں بایں وجہ چوری،ڈاکہ ،اغوا، جسمانی استحصال اور دن دہاڑے قتل و غارت گری جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے سرکش افراد کے حوصلے بلند ہو چکے ہیں اگر کوئی ان سنگینیوں پر قلم اٹھاتا ہے جو کہ ایک آزاد وطن کے شہری کا حق ہے کہ اپنے مافی الضمیرکا اظہار کرے تو تحریر و تقریر پر نہ صرف قدغنیں عائد کی جاتی ہیں۔ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے جسے مافیاز کی طاقت کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ محکمہ مال کی آشیرباد اور جعل سازیوں سے پورے کا پورا ریونیو ڈیپارٹمنٹ دن رات جعلی طریقوں سے دوسروں کی زرعی اور رہائشی پراپرٹی ہتھیانے میں اپنے رابطہ کاروں کی ملی بھگت سے مصروف ہے اور سادہ لوح افراد تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں ۔قانون نافذ کرنے والے اور قانون کی تشریح کرنیوالے ذمہ داران حسب ضرورت اور حسب منشا قانون کا نفاذ اور من مرضی کی تشریح کروالیتے ہیں لیکن زنجیر عدل میں جنبش نہیں ہوتی ۔ سماجی زندگی میں ہر کسی کو اپنے خاندان کے وقار اور عزت داری کا حق حاصل ہے مگر آج فیملی کورٹس میں ازدواجی اور سول کورٹس میں زمین وجائیداد جیسے دیگر مقدمات اس قدر طوالت کا شکار ہوتے ہیںکہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کا حتمی فیصلہ کب اور کس زمانے میں ہوگا۔ لوگ تنگ آکر خود ہی جج بن کر فیصلہ کرنے پر مجبورہیںجس سے سنگین نتائج برآمد ہورہے ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں ۔عام طور پرتعلیم یافتہ معا شرہ اپنے مسائل خود حل کر لیتا ہے لیکن یہاں نظام تعلیم سیاست کی نذر ہوچکا ہے کہ داخلہ کیلئے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے منتظمین اعلیٰ اسوقت تک سیدھے منہ بات نہیں کرتے جب تک سیاسی وڈیروں کے رقعے ہاتھ میں نہ ہوں اور ایسی کرم فرمائیوں کے عوض وڈیرے سب چھین لیتے ہیں کاروباری معاملات میں باہمی لین دین، کاروباری قرضہ جات کی واپسی پر ایک مخصوص عرصہ میں فیصلہ ہونا چاہیے لیکن یہاں اگرلین دین میںکوئی تحریر ،اشٹام یا رجسٹری بھی کر لی جائے تو بھی اندیشہ رہتا ہے کیونکہ لوگ جھوٹے چیک دے کر ،پرونوٹ لکھ کر اور رسیدات جاری کر کے بھی پابند نہیں رہتے ،حتی کہ حکومت کی قائم کردہ کنزیومر کورٹس میں بھی صرف وکلاء برادری کے ذاتی دائر کردہ مقدمات ہی پذیرائی پاتے ہیں ۔خوف خدا نہیں ۔۔ہو بھی تو کیسے مذہب و عقیدہ کی آزادی بھی گو مگو ہے ۔بعض فرقوں کو مکمل آزادی ہے جبکہ بعض کو نام نہاد کاروائیوں میں ٹارگٹ کر لیاجاتا ہے ۔ دہشت گردی کیخلاف جو قوانین نافذ کئے گئے ہیں انکی آڑ میں پولیس ناجائز مفادات حاصل کر رہی ہے حالانکہ سماج دشمن ،قانون شکن کسی رعایت کے حق دار نہیں مگر ایسوں کیلئے پولیس ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ یہی ان کے آئیڈیل ذرائع آمدن شمار ہوتے ہیں ۔ہمارامیڈیا‘ پولیس اور انتظامیہ کی بے حسی، واردات اور سانحے کو تین یا چار روز اپناموضوع بناتا ہے تو اس دوران سبھی چوکس نظر آتے ہیں مزید سائلین اور متاثرین کے ساتھ حسن سلوک اور ہمدردی بھی کی جاتی ہے جونہی اخبارات و ٹی وی سکرین پر نیا منظر آتا ہے تو پہلے والا قصہ پارینہ ہو جاتا ہے جس سے لاقانونیت اور انتشار فروغ پا رہا ہے۔اسی طرح سماجی خدمت اور مذہب کے نام پر قائم این جی اوز نے فلاح اور رضاکارانہ خدمت کو ایک باعزت کاروبار کی شکل دے رکھی ہے کہ ہر طبقہ کے ہوشیار و چالاک افرادنئی سے نئی انجمن سازی میں مصروف ہیں،کسی کو شک بھی نہیں ہوتا اوراثاثے بھی محفوظ رہتے ہیں۔اگر بنیادی انسانی حقوق کے ضمن میں تفصیلی بحث کی جائے تو انتہائی پریشان کن حالات ہیں لیکن تنقید نگاروں کو حکومتی ادارے اپنا دشمن سمجھتے ہیں حالانکہ حکومت تنقید کواپنے لیے آگہی اور حکومت کو خدمت سمجھ لے تو واقعی تبدیلی آجائے۔ملک میں ایسے تمام قوانین، کو تاہیاں اور کرپٹ عہدے داران ختم کئے جائیں جن سے شہری آزادیوںاور حقوق پر ناجائز کاریاں جاری ہیں ۔آج جس طرح افواج پاکستان ملک و قوم کی سالمیت کیلئے کوشاں ہے اسی طرح حکومتی اداروں کو عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے مخلصانہ حکمت عملیاں ترتیب دیتے ہوئے ہر قسم کے مافیاز کا سر کچلنا ہوگا تبھی حالات بدلیں گے اور عوام الناس کو آسودگی حاصل ہوگی۔ اب کچھ کر کے دکھائیں، وقت کم ہے ، لفاظی نہیں چلے گی اورماضی کے حکمرانوں کے کرپشن قصے چھوڑ دیں کہ سانپ نکل جائے تو لکیر نہیں پیٹا کرتے ۔
سانپ نکل جائے تو لکیر نہیں پیٹتے !
Feb 20, 2022