کچھ روز سے امجد انتہائی پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ وہ جب گھر میںآتا تو چپ چاپ کمرے میں جاکر لباس تبدیل کرکے سوجاتا۔وہ گھر میں داخل ہوتے ہیں سب کو ڈانٹتا اور انتہائی چڑچڑا ساہوگیا تھا۔ اسکی فیملی نے اس کوڈاکٹر سے چیک کرانے کا سوچا۔ پر وہ مانتا نہیںتھا۔ ایک روز اسکے کچھ پرانے دوست اسکے گھر والوں کے کہنے پر اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹرنے تفصیلی معائنہ کیا اور کہا۔ امجد صاحب کوئی بیماری نہیں بس ان کو شور سے دور کردیں۔ سب حیران رہ گئے۔ یہ کونسی بیماری ہے۔ ڈاکٹر نے کہا دراصل بے ہنگم شور کی وجہ سے انکی طبیعت میں چڑچڑا پن آرہا ہے۔ اسی وجہ سے ان کامزاج بھی ایسا ہی ہوگیا ہے۔
یہ صرف امجد کا ہی مسئلہ نہیںہے ہماری روز مرہ زندگی میں ہر دوسرے شخص کا مسئلہ ہے کسی کو لائوڈسپیکر کاشور پسند نہیں ہے تو کسی کوسٹرک پر ہارن کی آواز سے چڑ ہے۔سچ ہے اسی لئے تو لائوڈ سپیکر ایکٹ نافذ ہوا۔ عبادت گاہیں ہو یا سکول لائوڈ سپیکر ایکٹ کانفاذ انتہائی ضروری ہے۔ ہم کوبحیثیت مسلمان بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ دین کی تبلیغ اور ترویج کس طرح سے کرنی ہے اور سکولوں میں تعلیم وتربیت کیلئے لائوڈ سپیکر ضروری تونہیںہے کیونکہ آج کل پرائیویٹ سکول تو گلی محلوں میں ہیںاور لائوڈ سپیکر سے کوئی بزرگ، کوئی بیمار کس قدر متاثر ہوسکتا ہے اس کیلئے احساس ضروری ہے۔ نجی سکولوں میں مختلف سرگرمیوں کیلئے لاؤڈ سپیکر کے استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔پنجاب ایجوکیشن اتھارٹیز کو ساؤنڈ سسٹم ایکٹ 2015ء پر ہر صورت عملدرآمد کروانے کا حکم جاری کیا گیاہے اور اس ضمن میں جاری کئے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ لاؤڈ سپیکر سے پیدا ہونے والا شور انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کرتا ہے اور انسانی صحت کیلئے کسی بھی غیر صحت مند سرگرمی کی اجازت نہیں ہو گی۔ ہماری روزمرہ زندگی میں شور شرابہ ایک اہم جز ہے۔ ٹریفک کا شور، لوگوں کا شور، ٹی وی، کمپیوٹر یا موبائل فون کا شور، پرہجوم اور بڑے شہروں میں تو خاموشی ہونا ویسے بھی ناممکن بات ہے۔ 1972 ء میں ’’شور‘‘ نام کی ایک فلم بنائی تھی۔ اس فلم کی موسیقی نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ آج بھی یہ گیت سننے والوں کے دل موہ لیتے ہیں۔تاہم اس فلم کا مقصد شور کی آلودگی کے مسئلے کو اجاگر کرنا تھا۔
دوستو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صنعتیں شہروں کا رخ کررہی ہیں۔جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے اسی حساب سے اس شہر کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں جن میں سرفہرست ماحولیاتی آلودگی شور کی صورتحال ہے جس کو معمولی سمجھ کے نظر انداز کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے عوام الناس کی قوت و سماعت و قوت برداشت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور انکو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شور کی آلودگی بنیادی طورپرگاڑیوں کے شور صنعتوں کی مشینوں، لاؤڈ سپیکر کے استعمال، جہازوں کی آوازوں اور بلند آوازوں میں گانے بجانے اور ہر اس ایکٹیوٹی سے جنم لیتی ہے جس سے آواز، سماعت کی مقرر کردہ حد سے تجاوز کر جائے۔ شور کی آلودگی کو ختم کرنے کیلئے ہمیں سخت قوانین بنانے چاہئیں لیکن صرف قوانین بنانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ جب تک عام عوام کو اسکے مضر صحت نقصانات سے آگاہی نہیں دی جاتی اور انکی ذہن سازی نہیں کی جاتی تب صرف قوانین بنانا سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ بسوں اور گاڑیوں میں لگائے گئے جدید ہارن ،ریل گاڑیوں ،رکشوں ،جنریٹروں کا شور ہی نہیں موسیقی کا شور بھی عام ہوچکا ہے ،اگرچہ آہستہ آہستہ لوگ ان تمام شور کے عادی ہو رہے ہیں لیکن ہیں تو خطرناک۔ان میں سب سے زیادہ پریشان کن ٹریفک کا شور ہے ،اسکی باعث فالج اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کیا ہے۔حکومت کے فراہم کردہ اصلاحی بورڈ اسی علاقے تک محدود رہتے ہیں جہاں سرمایہ دار اور دولت مند طبقہ رہتا ہے۔ عام انسانی زندگی سے یہ بورڈ کوئی تعرض کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جس سے عام زندگی مفلوج رہتی ہے، طرح طرح کی بیماریاں جڑ پکڑتی ہیں اور متعدد امراض آسانی سے متعدی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شہروں میں موجود ایئرپورٹ اور سٹیشن، شادی بیاہ یا تفریحی تقاریب، میلے، مذہبی جلسوں و مشاعروں میں بجائے جانے والے بینڈ، باجے، قوالیوں اور گانوں کی ریکارڈنگ کا شور اور ان میں بے دریغ لائوڈ سپیکر کے استعمال کی وجہ سے صوتی آلودگی عروج پر ہے۔ اسی طرح صوتی آلودگی میں نمایاں کردار ادا کرنیوالے موجودہ دور کے پرتعیش ٹیلی ویڑن، میوزک سسٹم وغیرہ مزید آش بازی بھی ہیں۔علاوہ ازیں اسکی وجہ سے لوگ ذہنی تنائو اور نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہورہے ہیں۔شور انسان میں چڑچڑا پن پیدا کرتا ہے ،جو مزید نفسیاتی بیماریوں کی اہم وجہ ثابت ہوتا ہے۔بڑھتے ہوئے شورکے باعث لوگوں کی سماعت متاثر ہورہی ہے۔ برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ اسکے علاوہ نفسیاتی طور پر غصہ، نفرت، چڑچڑاپن، جارحیت، بے خوابی، بدہضمی، سستی، تھکن، بے توجہی، عدم دلچسپی، ذہنی دبائو اور غائب دماغی جیسی خرابیا ں ظہور میں رہی ہیں۔ اگر ٹریفک کے مسائل ،خاص طور پر صوتی آلودگی پر قابو پالیا جائے تو سڑکوں پر ہونیوالے جھگڑوں میں بھی واضح کمی ہوجائیگی۔ ماہرین کیمطابق درخت بھی شور کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جو شور کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگنے چاہئیں تاکہ وہ ماحول کے ساتھ شور کی آلودگی کو بھی کم کریں۔کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
بہت شور تھا جب سماعت گئی
بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے