عوام جس صورتحال سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ مہنگائی نے 22کروڑ عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے پٹرول بم گرا کر عوام کو زندہ درگور کردیا ہے۔ پٹرول کی نئی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں ہوشر با اضافے پر وزراء کے بیانات عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔صرف ایک رات میں پٹرول کی قمیت میں 12روپے اضافہ کرنے سے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بھی 15 فیصد اضافہ ہو گیا ہے ۔ٹرانسپورٹروں نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں 4فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ حکومت پاکستان کمی کی بجائے اضافہ کر دیا ہے ۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے مہنگائی میں 400فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعدادمیں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے جس تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا وہ خطرناک سونامی میں تبدیلی ہوچکی ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے عوام سے زندہ رہنے کا حق چھین اور دو وقت کی با عزت روٹی کمانا بھی مشکل ترین بنا دیا ہے۔ عوام کے معاشی قتل عام کو فوری طور پر بند کیا جائے۔اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر مہنگائی کا بول بالا ہے لیکن اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہمارا ملک پاکستان میں خوردنی اشیا مثلاً سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہیں مہنگائی کی سطح عروج پر ہے جو غریب عوام سے کوسوں دور ہے۔ ہماراملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب اور مزدور طبقے کا چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔بھوک، افلاس، فاقہ کشی کا منظر، بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ صورتحال میں مزید پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ افراد بے روزگار ہو ئے ٗ غریب دو وقت کی روڑی کیلئے پریشان۔مہنگائی سے سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا ہے وہ شہروں میں رہنے والا ہے جہاں اشیائے ضروریہ کے نرخ روز بڑھ رہے ہیں۔ مکان کے کرایوں میں گذشتہ ایک سال میں بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔ اشیائے خورد و نوش پر اٹھنے والے اخراجات ہر خاندان کے دوگنا ہو چکے ہیں جس کا اثر اگر دیکھنا ہو تو کسی بھی پرائیویٹ سکول میں جا کر دیکھیں جہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مہنگے سے سستے سکولوں میں شفٹ ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انکے والدین اب زیادہ فیس دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وطن ِ عزیز میں بے روزگاری کا دور دورا ہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اب لوگ زندگی کی زبوں حالی اور کنبے کے بوجھ سے تنگ آ کر خودکشی جیسے سنگین اقدامات پر اتر آئے ہیں۔ حکومتِ وقت اور گزشتہ حکومتوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی بھی خاطرخواہ اقدامات نہ کیے گئے جو بے روزگاری کے افریت کا قلع قمع کرسکیں۔ ایک سروے کیمطابق پاکستان میں اب بھی دو ملین سے سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو بالکل بے روزگار ہیں۔ جو کبھی بھی جرائم پیشہ جواری یا شرابی افراد کی لسٹ میں آکر دیمک کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وقت عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے والے ملکوں میں پاکستان 146 ویں نمبر پر ہے جو بگڑتی ہوئی معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی طرف اشارہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں بھی کرپشن کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں 2019-20ء میں وفاقی وزارتوں ، اداروں اور محکموں میں 404ارب 62کروڑ روپے کے مالی گھپلے منظر عام پر آئے ہیں۔ معتدد اداروں نے آڈیٹر جنرل کو ریکارڈ دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔ 56کیسز میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ کرونا فنڈنگ میں بھی اربوں روپے کی کرپشن سامنے آئی تھی مگر ذمہ داران کے خلاف کچھ نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کی جانب سے تحقیقات کا حکم محض خانہ پری کے سوا کچھ نہیں۔ کرپشن ملک میں ایک نا ختم ہونے والا ناسور بن چکا ہے۔ جس کی جڑیں گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کرپشن کو ختم کرنے کیلئے محب وطن، ایماندار اور پڑھی لکھی قیادت کی ضرورت ہے۔ احتساب کا نعرہ متنازعہ ہوچکا ہے۔ پانامہ لیکس اور پنڈورا پیپرز میں بے نقاب ہونے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ پی ایل ڈی سی میں بھی 15ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔