کراچی (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی + آئی این پی) کراچی پولیس آفس پر حملے میں زخمی ایک اور پولیس اہلکار دم توڑ گیا جس کے بعد شہداء کی تعداد 5 ہو گئی۔ زخمی اہلکار عبداللطیف ہسپتال میں داخل تھا۔ شہید ہونے والا پولیس اہلکار سکیورٹی زون ون میں تعینات تھا جبکہ شہید پولیس اہلکار کا آبائی تعلق شکار پور سے ہے۔ کراچی سے آئی این پی کے مطابق کراچی پولیس آفس پر حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا، مقدمہ ایس ایچ او صدر انسپکٹر خالد حسین میمن کی مدعیت میں سی ٹی ڈی سول لائنز تھانے میں درج کیا گیا ہے، مقدمے میں 3 ہلاک سمیت کالعدم تحریک طالبان کے 5 دہشت گردوں کو نامزد کیا گیا۔ مقدمے میں قتل، اقدام قتل، دہشت گردی کی دفعات سمیت سنگین نوعیت کی دفعات شامل ہیں۔ درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق کالعدم تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، دہشت گردوں کو غیر ملکی قوتوں کی مدد بھی حاصل تھی، درج ایف آئی آر میں 2 سہولت کار بھی نامزد کیے گئے ہیں، جب کہ مقدمے کی تفتیش سی ٹی ڈی کے انسپکٹر عرفان احمد کریں گے۔ ایف آئی آر میں 2 دہشت گردوں کی نشاہدی کی گئی ہے، جو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور جنہوں نے کے پی او کی نشاندہی کی۔ دہشت گردوں کی تعداد 5 تھی، جب کہ 3 گاڑی میں سوار ہو کر آئے تھے۔ مقدمے کے مطابق دہشت گرد صدر پولیس لائن کے قریب بنے فیملی کوارٹر کی عقبی دیوار پر لگی تار کو کاٹ کر داخل ہوئے، مقدمے کے مطابق حملے میں رینجرز اور پولیس کے 5 جوان شہید ہوئے جبکہ اٹھارہ افراد زخمی ہوئے۔ پشاور سے این این آئی کے مطابق کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر حملے کے دوران مارے گئے مزید 2 دہشت گردوں کے خاندانوں کی تلاش شروع کردی گئی۔ دونوں دہشت گردوں کا سٹیٹس آئی ڈی پیز کا ہے۔ مزید براں پولیس آفس حملہ کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ سی ٹی ڈی نے گلستان جوہر میں کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ایک مبینہ سہولت کار کو حراست لے لیا۔ ذرائع کے مطابق مبینہ سہولت کار کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا جہاں تفتیش کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب سی ٹی ڈی نے لوکیٹیر کی مدد سے شہر کی کچی آبادیوں پر چھاپے مارے اور 7 مشتبہ افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ متعلقہ افراد کا نادرا سے ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے، یہ کارروائیاں جیو فینسنگ کے بعد کی گئی ہیں۔ دوسری جانب کراچی پولیس آفس پر دہشت گرد حملے کے بعد بم ڈسپوزل یونٹ نے فائنل سرچنگ مکمل کرلی، سرچنگ کے دوران مزید 12 اشیاء محفوظ کی گئیں۔ سرچنگ میں ملنے والی اشیاء میں ایک ہینڈ گرنیڈ، پلاسٹک بکس میں پیک دو نئے پستول بمع مکمل ایسیسریز، نائن ایم ایم کی نئی گولیوں کا پیکٹ، خنجر، ڈیجیٹل کیمرہ، سمارٹ موبائل فون، دو دستی گھڑیاں، ایک مردانہ پرس، چلی ہوئی اور بغیر چلی ہوئی 210 گولیاں، دستی بم کے ٹکڑے، خودکش جیکٹ کا جلا ہوا کپڑا، جلا ہوا بیگ، یو ایس بی اور پستول ہولڈر بھی ملا۔ بم ڈسپوزل یونٹ نے تمام سامان محفوظ کر کے صدر پولیس کے حوالے کردیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق پولیس آفس حملے کی تحقیقات کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر 10 سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا۔ جبکہ حملے کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔ حملہ آور کی زیراستعمال گاڑی کی بھی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے کے وقت تقریباً 100 کے قریب موبائل فون نمبرز کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس آفس پر دہشت گردی میں استعمال کی جانے والی کار 8 افراد کو فروخت کی گئی جبکہ کار جس شوروم سے فروخت کی گئی تھی اس کے مالک کو تفتیشی حکام نے طلب کرلیا ہے جو کہ ابھی پنجاب گیا ہوا ہے۔ گاڑی جس کامران نامی شخص کے نام پر رجسٹرڈ ہے پولیس نے اسے تفیتش کے بعد شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا ہے۔ دہشت گردوں کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آ گئی۔ فوٹیج کے مطابق گاڑی میں سوار دہشت گرد شارع فیصل سے ہوتے ہوئے کے پی او پہنچے، پیٹرول پمپ کے نصب سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کی گاڑی 7 بج کر ایک منٹ پر صدر تھانے کے سامنے سے ہوتے ہوئے کے پی او کے مرکزی گیٹ کے سامنے سے گزری۔ ذرائع کے مطابق دہشت گرد کے پی او کے عقب میں واقع فیملی کوارٹرز سے ہوتے ہوئے پہنچے جہاں موٹر سائیکل سوار 2 دہشت گردوں نے انہیں کے پی او کی عمارت کی نشاندہی کی۔ دہشت گردوں نے گاڑی سے اترنے کے بعد کے پی او کے باہر پارکنگ ایریا میں تعینات پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے زخمی کیا جس کے بعد دہشت گردوں نے مغرب کی نماز ادا کرکے مسجد سے نکلنے والے نائب امام پر فائرنگ کی لیکن خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔ اسکے بعد دہشت گرد کے پی او اور صدر تھانے کے درمیان گلی سے ہوتے ہوئے کے پی او کے مرکزی گیٹ پر پہنچے جہاں دہشت گردوں نے فائرنگ اور دستی بموں سے حملہ کر دیا اور کراچی پولیس آفس میں داخل ہوگئے۔دریں اثناء شہید کانسٹیبل کی نماز جنازہ سرکاری اعزاز اور سلامی کے ساتھ ادا کی گئی اور وزیراعلیٰ سندھ نے شہید کانسٹیبل کے جسد خاکی پر پھول چڑھائے۔ وزیراعلی نے شہید کانسٹیبل کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عبداللطیف ایک بہادر پولیس اہلکار تھے۔ انہوں نے جو قربانی دی وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ شہید عبداللطیف نے سوگواران میں بیوہ‘ چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔
شہید 5ہو گئے، سہولت کار سمیت 10مشتبہ گرفتار، مقدمے میں 5دہشتگرد نامزد
Feb 20, 2023